انہونی سمجھا جانے والا وہ لمحہ جس میں ہونی کو کوئ نہیں ٹال سکتا،بھلا کون ٹال سکا ہے۔
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جب نئی زندگی کو جنم دینا چاہے تو درد کے اس لمحے میں بین کہیں دور تک سنائی دیتے ہیں۔چاہنے والوں کے بین،جیتے جی مارتے رہنے والوں کے بین ۔
ایسے میں کہیں سے وہ پکارتی ہے کہ میں ہی حقیقت ہوں۔
میں ہی اصل ہوں
میں ہی دوام ہوں
میں ہی بقا ہوں
میں ہی شاہراہ حیات کا وہ جزیرہ ہوں جہاں سے ابدی قیام گاہ کے در وا ہوتے ہیں۔جہاں سے وصل کی منزل کا آغاز ہوتا ہے مگر تم جز وقتی لمحہ فرقت میں مگن اشارہ بعید کو نہیں پہچان پاتے۔
وہ لمحہ جب کوئی روح اپنے قدموں پر چل کر آتی ہے اور جسم کی بندشوں سے آزاد ہوتی ہے تو اس کے قدم کس طرح اگلا قدم بڑھانے سے انکار کردیتے ہیں،اس حقیقیت کا راز تم ابھی نہیں پا سکے ہو۔راز یزداں کی حقانیت بہرحال یوں عیاں ہوجانے والی شے بھی نہیں ہے۔یہ معرفت کی وہ جولان گاہ ہے جہاں بھٹکے ہوؤں کو منزل مل جاتی ہے تو کہیں کچھ منزل پر پہنچ کر بھی راندہ درگاہ کردیے جاتے ہیں۔
سرائے خانہ دہر میں تم دوام کے طلب گار ہو تو دوام کو کیسے پہچان پاؤگے؟
تم ظاہر کے حصول کی طلب میں ہو تو غائب سے کیسے ناطہ جوڑو گے؟
عدم سے وجود اور وجود سے عدم میں آنا حیات اور بعد حیات کی پگڈنڈیاں ہیں جن پر کبھی تم اپنی مرضی سے چل رہے ہو اور کبھی تمھیں گزارا جارہا ہے۔
چلتے چلتے ہی دو آنکھیں دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں،دو پاؤں تھک جاتے ہیں،دو ہاتھ حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لب خاموش ہوجاتے ہیں بدن ساکت و جامد ہوجاتا ہے۔یہ ساکت بدن حرکیات کا وہ فلسفہ ہے جس کے تانے بانے لا یزال اور لا زوال اور باکمال سے ملتے ہیں۔
جسے تم کھونا سمجھتے ہو وہ پانا ہوتا ہے،جسے تم ختم سمجھتے ہو وہ شروع ہوتا ہے۔کھونے اور پانے کا یہ بھید زلف کے کنڈل کی طرح ہوتا ہے جس میں عشق کی رمز ہے۔جس میں وہ بھید ہے کہ سرا ہاتھ نہیں آتا آ بھی نہیں سکتا۔
تم ہونقوں کی طرح لمحہ جاں گسل میں روح کو جسم سے نکلتے جسم کو مٹی ہوتے دیکھتے ہو تو تڑپتے ہو مگر کہیں کوئی دور منادی کرنے والا یہ منادی کرتا ہے کہ کامیابی ملی ہے،ناکامی ملی ہے ۔بظاہر ایک ہی ساخت کے دو نفوس اپنے بیجوں کا پھل پاتے ہیں۔
اور یہ پھل تمھارے یا میرے اختیار میں نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی کھلادو یہ پھل میٹھا ہو تو نصیبوں والوں کو ملتا ہے۔یہ پھل کڑوا ہو تو بدنصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔کتنے ہی جیتے جی کڑواپھل کھاتے ہیں اور ہمیشگی کے لیے میٹھے ہوجاتے ہیں۔کتنے ہی جیتے جی میٹھا میٹھا کھاتے ہیں اور کڑوے ہوجاتے ہیں۔
تو وہ مشروب جسے آب حیات کہتے ہیں تم کسی کو اپنی مرضی سے پلا نہیں سکتے۔اور اپنی ناپسندیدگی کی بنیاد پر چھین نہیں سکتے۔
جس کا کام ہے وہ کر رہا ہے کرتا رہے گا۔
اسی طرح کامیابی و ناکامی کے مدارج طے شدہ نہیں ہیں۔ مقرر نہیں ہیں۔صرف نیت کا کام ہے اس کا سکہ چلتا ہے ماہ و سال کی گردش کا ادھر گزر نہیں۔با اختیار ہستی پل کے پل میں “قد افلح من تزکی” کی خوشخبری سنادیتی ہے تم اس شاہراہ کو حیرانی سے دیکھتے رہ جاتے ہو جہاں اس روح کے قدموں کے نشان ثبت ہیں جس نے کامیابی پائی۔
مگر رکو!سنو یہ اتنا آسان نہیں تھا۔کسی کی آواز خاموش ہوئی تھی تو کسی کی جاں۔کسی نے خود کو دھوپ میں کھڑا پایا تھا۔جب کوئی ہونی انہونی کی طرح سے ہوتی ہے تو لمحے درد سے بھرجاتے ہیں۔گھڑیاں ہجر الاپتی ہیں،پتلیاں گوٹیں بن جاتی ہیں۔کہیں اندر ایک ایسا پردہ نصب کردیا جاتا ہے ہے کہ زن زن زن منظر بدلتے ہیں اور بدلتے چلے جاتے ہیں۔سو اتنا آسان بھی نہیں۔
مگر کوئی روح جب جسم سے نکل کر یار حقیقی سے وصل کے سفر پر رواں دواں ہوتی ہے تو اپنے ہی گھر کی سیڑھیوں یا کسی دروازے یا کسی دہری پر ٹھہرتے قدموں،جھکی ہوئ گردن،خاموش لبوں کے ساتھ نزاع کے تکلیف دہ لمحات میں بھی
یاَ اٴَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةّ ارْجِعِی اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَ ادْخُلِی جَنَّتِی
اے اطمینان والی روح۔
اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
پس میرے بندوں میں شامل ہو۔
اور داخل ہو میری جنت میں۔
کا ورد کرتی ہوئی نظر آتی ہے اس کے اطمینان کا وقت شروع ہوتا ہے اور تمھاری بے چینی کا۔
ایسے میں جب دہری سسک رہی ہوتی ہے،دہلیز آہیں بھرتی ہے۔ اس کے لمس آشنا گلی کوچے آہ و زاری کرتے ہیں اور تم تڑپتے ہو تو وہ تمھیں تسلی بخشتا ہے جس نے ضابطہ حیات اتارا !
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى
آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔
وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى
اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى
اور آپ کا رب آپ کو عنقریب (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔