نظام بہت سارے قاعدوں سے سجا ایک راستہ ہوتا ہے جس پر سے گزر کر کوئی قوم یا ریاست ترقی کرتی ہے۔ نظام صدیوں کے تجربوں کے بعد وجود میں آتے ہیں۔ ارتقائے بنی نوع انسان کے مختلف مراحل میں ہونے والی غلطیاں آنے والی نسلوں کو بہت سے سبق دے جاتی ہیں۔ ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے پھر نئے قواعد وجود میں آتے ہیں جو کہ راستے میں مشعل کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح سے نسل در نسل منتقل ہونے والے تجربات خواہ وہ اچھے ہوں یا برے مل کر نظام کی بنیاد ڈالتے ہیں۔
نظام کے متعلق ہمارے ملک میں نظر دوڑائی جائے تو مجھے عجیب صورتحال نظر آتی ہے۔ نظام کی کوئی قسم تو دور کوئی نظام ہی نظر نہیں آتا۔ نہ جمہوریت ہے نا آمریت ہے نا مذہبی ریاست ہے نہ سیکولر نہ آزاد خیال ہے نا اشتراکی۔ غرض ہر لحاظ سے ہم ایک انتشار کا شکار ہیں۔ ایک قوم کسی نظام کے بنا یوں ہی ہوتی ہے جیسے جنگل میں ہرن۔۔ وہ خوبصورت نظر تو آتی ہے مگر ہر وقت شیروں کی نظر میں رہتی ہے۔ اگر انہی باتوں کو سوچا جائے تو مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ ہم بحیثیت مجموعی کوئی ایک قوم ہیں ہی نہیں۔ جب کوئی قوم ہی نہیں تو کیا ریاست، کیا اس کا نصب العین اور کیا ہی اس کا آئین اور پھر کیا ہی اس کا نظام۔
اوپر بیان کی گئی باتیں بے شک حقیقت ہیں مگر تلخ باتوں سے بھی نظام نہیں بدل جاتے، نظام بدلنا کسی انقلابی شب خون مارنے سے کم نہیں ہے۔ انقلاب کا وقوع پذیر ہونا ہی تو نظام کی تبدیلی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر طبقہ نظام کے جبری استحصال سے تنگ آیا پڑا ہے۔ پھر پڑھے لکھے کیا اور ان پڑھ کیا، غریب بھی پس رہے ہیں اور امیر بھی رو رہا ہے۔ مگر نظام کو بدلنا کوئی نہیں چاہتا۔ سب کی کوشش ہے کہ نظام کے مطابق ڈھل جائیں مگر نظام میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ رشوت خوری کے حق میں فتوے بھی لے لیں مگر اس بیماری کو ختم کرنے کا کوئی علاج دریافت نہیں کریں۔ غرض ہر لحاظ سے ہم استحصال کے عادی ہوتے جارہے ہیں مگر نظام کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش نہیں۔ اور یہی بات میری پہلی بات کو تقویت بخشتی ہے کہ جن لوگوں کے احوال ایسے ہوں وہ کبھی بھی ایک قوم کہلانے کے مستحق نہیں۔ وہ قومیں جنہوں نے اوراق تاریخ میں نام بنایا ہو وہ کبھی بھی ایسے بے راہ روی کا شکار نہیں رہیں۔ ہم نے مغرب کو برا بھلا کہنا وراثت میں حاصل کیا ہے۔ اندھی تقلید کرنا اور عقل کے خلاف چلنا ہمارا طرز عمل ہے۔ تاریخ سے آشنا لوگ لازم جانتے ہوں گے کہ امریکی جنگ آزادی کی جدوجہد کے پیچھے کتنی ناقابل فراموش داستانیں ہیں۔ امریکیوں نے کمپنی سے اس وقت آزادی حاصل کر لی تھی جس وقت ہندوستان کے لوگوں میں ذہنی بغاوت بھی پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ اپنے فریڈم فائٹرز کو آج تک یاد رکھتے ہیں۔ ان کے نام کی شمعیں روشن کرتے ہیں، وہ جو بھی ہیں لیکن اپنے محاسن کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہتے ۔لیکن ہمارے ہاں تو قائداعظم متنازعہ، اقبال متنازعہ ،لیاقت علی خان متنازعہ، سرسید متنازعہ حتی کہ لوگ کیا مساجد بھی متنازعہ ہو گئی ہیں۔
ہم لوگوں کا حال ایک بے ہنگم ریوڑ کی مانند ہے کوئی بھی آئے اور چھڑی کے دم پر ہم کو جس مرضی سمت ہانک لے جائے۔ہمارا اپنا مقصد صرف روٹی کا حصول ہے۔ ہم لوگوں کو ابھی تک نہ اپنے حقوق کا پتا ہے اور نہ ہی اپنے فرائض سے آشنائی ہے۔نہ منزل کا پتہ ہے اور نہ ہی راستے کا۔ ہم بس اشاروں سے کنٹرول ہو رہے ہیں اور کنٹرول ہی ہوتے جا رہے ہیں۔
اسی لئے حالات اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ قصور کی زینب ہم بھول گئے، پشاور کے شہید بچے ہم بھول گئے، موٹروے پر زیادتی کا حالیہ قصہ بھول گئے، مارشلاؤں کو بھول گئے، کراچی کا قتل عام بھول گئے مزاروں اور درباروں پر بم پھٹے ہم بھول گئے تھر کے بھوکوں کو بھول گئے اور نہ جانے کیا کیا اور کتنا کتنا ہم بھول گئے ہیں۔ ہمیں بس اس بات سے غرض ہے کہ ہمیں دو وقت کی روٹی ملتی رہے اور باقی ساری دنیا کو چاہے آگ لگ جائے۔ یوں ہی سات دہائیوں سے چلتا آرہا ہے اور ابھی تک قائم ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی اکا دکا وعدوں کے علاوہ کوئی کہتا ہوں کہ نظام بدلنا ہے۔ کوئی ایسا جو کہتا ہو کہ یار بس بہت ہوگیا اب ہم خود کو ملک و ملت کے لیے وقف کر کے انقلاب لا کر رہیں گے۔ ہاں اگر ایسی باتیں سوچنے والی مخلوق ملتی ہے تو وہ ہوتی ہے ملک کی نوجوان نسل اور وہ بھی وقت کے ساتھ ہی بدل جاتی ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے مکمل حقوق میسر ہوں مگر کوئی نہیں چاہتا کہ وہ ایک باعزت شہری بنے اور قانون کی پاسداری کرے۔ بلکہ یہ اس کے برعکس ہے کہ لوگ یہاں پر قانون توڑ کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ جو جتنا بڑا جرم کرتا ہے وہ خود کو اتنا بڑا ہیرو سمجھتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک پرامن اور پڑھے لکھے انداز سے نظام کی درستگی کی جاسکے ؟اس نظام کے اندر برائیوں کو ختم کرکے ایک خالص نظام رائج کیا جا سکے۔ ان سب کا مختصر جواب ہوتا ہے تعلیم لیکن جہاں سے انقلاب کی شروعات ہونی تھی وہاں سے احتجاج ہورہے ہیں کہ ان کے امتحانات آن لائن لئے جائیں۔مختصر یہ کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہم اس وقت ایک خونی تصادم کی طرف رواں دواں ہیں۔انتشار جنم لے چکا ہے مگر اس کو ہم جوان ہونے سے پہلے ختم کر سکتے ہیں۔اور یہی ہمارے لئے بڑی کامیابی ہو گی۔ورنہ ہر بغداد کے لئے کوئی ہلاکو ضرور جنم لیتا ہے۔