گلوبل ولیج کے دور میں جہاں ہر چیز تک رسائی بس ایک کلک کی محتاج ہے وہی فحاشی و عریانی کا بہت بڑا سیلاب معاشرہ کو ڈبو رہا ہے، اور اسی پر بس نہیں اب تو فحاشی اور بے حیائی کو خوبصورت تہذیب بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ انسانوں کی اکثریت اسے اپنی تہذیب و روایات کا حصہ ماننے لگی ہے ۔ اور اسی وجہ سے لوگوں کو بے حیائی کوئی برائی نہیں لگتی ایسے حیا سوز مناظر کھلے عام نظر آنے لگے ہیں کہ بے حیائی اور فحاشی ایک عام بات لگتی ہے ۔
پچھلے زمانے میں جو باتیں شرم کے قابل سمجھی جاتی تھیں اور جن کا ذکر کرنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا تھا اب وہ باتیں عام سی لگتی ہیں لوگ کھلے عام اس کا تذکرہ کر رہے ہوتے ہیں اس کی مثال موجودہ دور کا میڈیا ہے جس میں ہر چیز کھلے عام دکھائی جا رہی ہے جس میں مرد و عورت کا اختلاط، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، عورتوں کی نیم برہنہ اور عریاں تصاویر کی نمائش، اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا، ڈراموں اور فلموں میں شراب نوشی، فضول گوئی، بد کلامی اورعلی الاعلان برے کام، پوشیدہ جنسی جرائم کی کھلے عام تشہیر کرنا۔
فحاشی کی تشہیر کرنے سے قرآن و سنت ہمیں روکتے ہیں مگر ہمارے “اسلامی ملک پاکستان” کا “غیر اسلامی میڈیا” کھلے عام فحاشی کی تشہیر میں مصروف عمل ہے اور ہم عوام برائی دیکھنے کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ بات عام سی لگتی ہے۔
فحاشی کو فروغ دینے والوں کو اللہ تعالی نے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ اور بالخصوص مسلمانان پاکستان جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ پوری دنیا جانتی ہے وطن عزیز میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، مہنگائی، سیلاب، طوفان، کرونا وائرس کا حملہ ہمارے لیے پریشان کن ہے۔ غرض یہ کہ ایک چھوٹا سا وائرس جو کہ مائیکرو سکوپ سے بھی شاید ہی صحیح سے نظر آتا ہوں اس چھوٹے سے وائرس نے دنیا کے نظام کو مفلوج و درہم برہم کر دیا ہے یہ اللہ کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے ؟جبکہ حدیث میں اس بات کی تصدیق کر دی گئی ہے ارشاد ہے :
“اگر کوئی قوم بے حیائی میں مبتلا ہو کر کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرنے لگے تو اس قوم میں طاعون اور وہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں جن کا نام ماضی میں نہ سنا گیا ہوں” (سنن ابن ماجہ)
تو یہ کرونا وائرس بھی اسی بے حیائی کے نتیجے میں ملا اللہ کا عذاب ہے جس کا نام بھی کبھی نہیں سنا گیا تھا ۔معاشرے میں بڑھتے تمام اخلاقی جرائم بھی اسی بے حیائی کا نتیجہ ہیں۔ میڈیا والے یہ سوچ کر جرائم پر مبنی ڈرامے دکھاتے ہیں کہ سے لوگ ہوشیار ہونگے اور بچنے کی تدبیر کریں گے مگر ہوتا اس کا الٹ ہے، کیونکہ کھلے عام اس طرح کے ڈرامے دکھانے سے جو دکھائے تو awareness کے نام پہ جارہے ہیں مگر اس سے صرف منفی اثرات ہی مرتب ہو رہے ہیں اور بے حیائی ایک سیلاب کی صورت میں بڑھتی چلی جارہی ہے اس بے حیائی کی بڑھتے طوفان کی لپیٹ میں امیر غریب سبھی آرہے ہیں۔
حدیث میں ارشاد ہے: “جب تم میں حیا نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔ ” (سنن ابو داود)
تو آج ہم دیکھتے ہیں کہ جب معاشرے میں حیا ناپید ہوتی جا رہی ہے اور بے حیائی کا سیلاب ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تو کیسے کیسے اخلاقی جرائم سر اٹھا رہے ہیں ، اپنوں اور غیروں کا فرق تک ختم ہوگیا ہے۔ بے حیائی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سگی بہن اپنے بھائی سے اور سگی بیٹی اپنے باپ تک سے محفوظ نہیں ہے آخر یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟؟ کوئی اس معاشرے کو دیکھ کر نہیں کہہ سکتا کہ ایک اسلامی ملک ہے کیونکہ اس کا حال بھی مغرب سے کچھ کم نہیں جس تباہی کے دہانے پر آج مغربی دنیا پہنچ چکی ہے اس بے حیائی کے سبب اسی تباہی کے دہانے پر آج پاکستان پہنچ چکا ہے،فتنوں پے فتنے سر اٹھا رہے ہیں،مزید کس فتنے کا انتظار ہے؟؟ روشن خیالی کے نام پر تاریکیاں مسلط کی جا رہی ہیں، بے حیائی ایک سیلاب کی صورت میں چھا گئی ہے، کسی شادی پر جا کے عوام الناس کی حیا کی صورت دیکھ لیں لباس کے نام پر بے لباسی اور خدا کی بستی میں خدا سے بے خوفی ملاحظہ کرلیں، تعلیم کے نام پر کیا پڑھایا جا رہا ہے اور مخلوط تعلیم لازم،یہ سب اس بڑھتی بے حیائی کا نتیجہ ہے اگر اب بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے اور فحاشی و عریانی فروغ کو نہ روکا گیا اس کی مذمت نہیں کی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ پاکستانی معاشرہ تباہی کے گڑھے میں گر جائے گا اور شاید پھر کبھی نہ اٹھ سکے۔
حیا سے پہچان ہے ہماری، حیا ہی تو جان ہے ہماری حیا کا احترام کرنا، حیا کے کلچر کو عام کرنا