ملک کے دارالحکومت میں ایک ریل پیل والے مقام پر اس کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ وہ روزانہ اپنی اس چھوٹی سی دکان پر صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتا تھا، جس کی بدولت اسے چند رقم مل جاتی تھی، جس سے وہ اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالتا تھا۔ لیکن آج صبح اس کے لیے ایک اچھی صبح ثابت نہ ہوئی، وہ معمول کے مطابق اپنی دکان پر پہنچا، اس نے اپنی دکان کھولی، تو دکھائی دینے والے منظر سے دھنگ رہ گیا۔وہ کیا دیکھتا ہے کہ اس کی دکان کی پچھلی جانب کی دیوار ٹوٹی پڑی ہے، شیشے کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں۔ ضروری سامان اور نقدی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے سر پے ہاتھ رکھ کر پاؤں کے بل ایک کونے میں ہو کر بیٹھ جاتا ہے، کافی دیر تصورات کی وادیوں میں سر گرداں گھومنے کے بعد وہ اٹھا۔ اور فوراً پولیس آفس پہنچا۔ جب وہ آفیسر کو پورے واقعہ سے آگاہ کرنے ہی لگتا ہے تو اسے کچھ ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑا ، جنہوں نے اسےخاموش کرا دیا ۔ کیوں کہ پولیس افسر اپنی فیس لئے بغیر اس کی کسی قسم کی کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں ۔ اتنے میں ایک جاسوس افسر ظاہر ہوتا ہے ، وہ بھی فنگر پرنٹ لینے پر اس وقت تک رضامند نہیں ہوتا جب تک اپنا جیب گرم نہیں کر لیتا۔
چنانچہ اس معاملے میں اسے 1200 ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنا پڑی، تب جا کر اس کی بات پر کان دھرا گیا۔ اور اگر وہ یہ رقم ادا نہ کرتا تو اسے انصاف ملنا مشکل تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں 55 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو تو اتنی رقم کی ادائیگی ہر فرد کے بس کی بات نہیں، اور ناجانے کتنے لوگ اس خطیر رقم کے نا ہونے کی وجہ سے انصاف سے کوسوں دور ہوں گے۔ اور انصاف ان کے ہاں عنقاء کی طرح ایک تخیلاتی شئی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔
اس ملک کا ماحول کچھ ایسا ہے کہ اگر آپ بشمکل اتنی رقم کا بندوبست کر بھی لیں جس سے پولیس آفیسر کی ہوس کا خاتمہ ہو سکے تو پھر بھی آپ شفاف تحقیقات سے بےغم نہیں ہو سکتے ، کیوں کہ اکثر ایسابھی ہوتا ہے کہ دوسرا فریق اس سے زیادہ رقم دے کر تحقیقات اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور بعض دفعہ تو ڈپٹی چیف آف پولیس تفتیش سے قبل آپ کو فون کر ے گا، اور الزامات خارج کرنے پر کچھ رقم کی پیش کش بھی کرے گا، اور جب معاملہ اس نہج پر پہنچ جائے تو آپ سمجھ لیں کہ دوسرے فریق نے آپ سے سےزیادہ رقم دے کر تفتیش کو رکوانا چاہا، پھر کیا ہوتا ہے مہینوں گزر جاتے ہیں، لیکن پولیس کسی بھی ملزم یا مجرم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
ناجانے آپ یہ کہانی پڑھ کر کس ملک کے بار ے سوچ رہے ہوں گے، اور کس ملک کی پولیس کے اس قدر انفرادی اوصاف پر فریفتہ ہو رہے ہوں گے، ممکن ہے آپ کسی ملک کی پولیس کے بارے اس واقعہ کو یقینی سمجھ لیں ، آخر میں آپ کو بتاتا چلوں آپ چاہے جس مرضی ملک کا سمجھ لیں لیکن حقیقت سے آگاہ کرنا فرض سمجھتا ہوں، اور وہ یہ کہ یہ وہ حادثہ ہے جس کا واسطہ 33 سالہ حسین سے پڑا۔جس کا تعلق یمن سے ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء میں یہ الیکٹرانک شاپ کا مالک تھا۔ سابقہ صدر کو جس جگہ نظر بند کیا گیا اس سے تھوڑی ہی مسافت پر اس کی دکان واقع تھی۔ اور یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں پولیس اہلکار دن رات ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں، اس کے باوجود اسے اپنی مدد کے لئے کسی افسر کو تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ اور تقریباً 60فیصد یمنی باشندوں کی طرح اسے بھی پولیس کو اپنی بات سنانے کی خاظر رشوت دینا پڑتی تھی، جب دارالحکومت کی یہ حالت ہے تو باقی علاقوں کا اندازہ لگا لیجئے۔ یہ ایک سچی کہانی ہے، جسے ورلڈ بینک نے کرپشن اور بدعنوانی کے واقعات کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی سائٹ پر ڈال رکھا ہے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہم نے اس کہانی کا تذکرہ کیوں کیا۔ شاید اس لئے کہ اگر آج بھی وہاں یا کسی بھی ملک کی پولیس کی صورتحال ایسی ہے یا اس سے بھی بد تر ہے، تو اہل اقتدار کو اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے، اور پولیس اہلکار کی مجرم یا ملزم سے خفیہ راست باز پر کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے۔ اور اس شعبہ میں کچھ ایسی تبدیلیاں اور اصلاحات ناگزیر ہیں جن کی بدولت عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کیا جاسکے، لوگ پولیس کو دیکھ کر انجانے خوف میں مبتلاء ہونے کے بجائے سکھ کا سانس لیں۔ اور پولیس کسی قسم کی بد عنوانی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو۔ اور انصاف کی گراں بار قیمت کا بوجھ اب عوام کے کندھوں سے اتر جانا چاہیے ۔ انصاف کی قیمت سونے کی طرح ہر گزرتے دن اتار چڑھاؤ کا شکار نہ ہو، اور مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اگلے کچھ عرصہ میں اخبارات میں دیگر دھاتوں کی طرح انصاف کی قیمت کا بھی ایک خانہ درج نہ ہو جائے۔ اگرچہ یہ دھات نہیں لیکن بے شمار دھاتوں کو اس کی نظر کرنے والے بھی بہت ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو قیمتی دھاتوں سے اسے روندھنے کی بھی بھرپور سکت رکھتے ہیں۔ لیکن اس دوران پسے گا کون ؟ اصل مسئلہ یہی ہے جس کی پروا باپروا ہی کر سکتا ہے۔