مستنصر حسین تارڑ نے لکھا تھا!
دنیا بھر میں صرف ایک شجر ہے
جو بہار میں نہیں
صرف خزاں میں اپنے جوبن پر آتا ہے
اور وہ ہے
آتشِ عشق میں جلنے والا چنار۔
اور اس آتش عشق میں جلنے والے چنار کا درد ہے ایک خواب۔ اور وہ خواب ہی اس کا عشق ہے۔ اور اس خواب کی تعبیر کا نام آزادی ہے۔
کشمیریوں کے ہاں خزاں بہار تو شاید اب معانی کھو چکے ہیں کیوں کہ وہاں ایک ہی موسم غالب رہتا ہے اور وہ ہے درد کا موسم۔
وہ جس کے درد کے درماں غیر تو کیا کرتے کہ اپنوں ہی پر اس بھید کے در بند ہوگئے جو ڈل میں کھلتا تھا۔
لائن آف کنٹرول کے اس پار کتنی فاختائیں ہدیہ جاں دے کر آزادی کے گیت گاتی رہیں اب کسی کو اس سے کیا؟
پھول جو کھلنے سے پہلے مرجھا گئے
کلیاں جو بن بولے سوگئیں
چوڑیاں چھن چھن کرنے کے بجائے چٹخ چٹخ کر ٹوٹتی رہیں۔
آنکھ سے بہتا کاجل گلیوں میں سونی لکیر بن کر ابھرتا رہا
خون جو گلیوں میں بہتا رہا کتنا ارزاں رہا
شہر اماں کے متلاشی تن من دھن کی بازی لگاتے رہے
آنسوؤں کے بھنور سے ابھرتے خواب بن گئے راکھ۔
نیلم سے نکلتی آگ نے سروسمن پھونک دیے۔
کسی کے زمردیں جوڑے سے لپکے ہجر کے شعلے۔ دلوں کی بستی کی بستیاں پھونک گئے کس نے دیکھا کس نے جانا؟
کسی کے ہاتھوں کی حنا چھٹی۔
کسی کے رخسار کی لالی۔
کسی شہزادے کا سر اس کی کلاہ کے ساتھ آیا۔
کس نے پھر بھی جانا؟
بھیگی بھیگی رت میں دور کہیں سے بانسری کی آتی آواز آنسو کا راگ بن کر ابھری، جو صرف وہاں گایا جاتا ہے جہاں ہجرت ہوتی ہے،جہاں بچھڑنا ہوتا ہے،جہاں جدائی ہے،جہاں سر کی سنگیت سے لڑائی ہو،جہاں خون پانی ہو وہاں آنسو راگ گاتے ہیں بانسری دل دہلاتی ہے۔
لمحے گزرے۔
ماہ و سال بیتے۔
نصف صدی سے زائد ہوا۔
پرانے گزرگئے،نئے آگئے۔
مگر ان جھیل جیسی آنکھوں کا خواب ادھورا ہے۔
خمار آنکھوں کے رت جگے بتارہے ہیں۔
کہ دلوں کے دیپک ہمارے اپنے بجھارہے ہیں۔
بھارتی جارحیت ہے، ہاں! تھی، ہے اور مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں وہ بھی اپاہج؟ کوئی بات نہیں غیر تھے ہم نے کون سا سن لی؟
مگر تم نے نظر پھیری؟
تم نے پالیسی بدل ڈالی۔
تم نے دشمن سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
وفود کے تبادلے ہوتے رہے۔
ساڑھیاں اور آم کی پیٹیاں آتی جاتی رہیں ۔
تو کبھی راہداریاں بنتی رہیں ۔
ہم اس پورے منظرنامے میں کہاں رہے؟
کسی نے کب یہ جانا کہ کشمیر کا مسئلہ قراردادوں یا مذاکرات کا مسئلہ نہیں ہے۔
کشمیر کا مسئلہ روٹی دال چاول کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔
کشمیر کا مسئلہ تعلیم کا مسئلہ بھی نہیں ہے وہاں تو اب بھی سماں شبیر موجود ہے۔
کشمیر کا مسئلہ بھوک اور پیاس کا مسئلہ نہیں ہے۔
جنھوں نے اپنی جانیں خود ہتھیلی پر رکھ کر آزادی کے لیے پیش کیں ان کے مسائل اتنے چھوٹے ہو بھی نہیں سکتے۔
ان کا سب سے بڑا مسئلہ اختیار کا مسئلہ ہے۔
حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔
حیثیت کا مسئلہ ہے۔
اپنے گھر کے معاملات خود سنبھالنے کا مسئلہ ہے ۔جس کے لیے وہ اپنے بھائی بندوں کی طرف دیکھتے آرہے ہیں مگر یہ کیا ایک طویل جدوجہد کے بعد یوٹرن آتا ہے اور شائیں کی آواز سے منظر یکسر بدل جاتا ہے۔
اب تو ریاستی اختیار بھی نہیں رہا اب تو بچھا کچھا اختیار بھی چھین لیا گیا درد کی طویل شب دراز کردگئ۔ بھائ بند زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ نظر پھیر لی گئ تو دل ٹوٹتے بھی رہے، وہ مٹھی بھر طبقہ جو ان کے لیے آواز بلند کرتا ہے ان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے اس کی بھی شنوائی تو کوئی نہیں ہوتی۔
شب گزیدہ سحر، داغ داغ اجالے کے سوا کیا دے سکتی ہے؟
داغ مفارقت سے وصل کے گیت اور خواہاں اپنی موت مرجاتے ہیں۔
کشمیر کی آزادی کا مسئلہ پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے محض نعروں، وعدوں اور زبانی جمع خرچ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔
نصف صدی زائد عرصہ پاکستان کی محبت میں دی گئی کشمیر کی قربانیوں اور کشمیر کے لیے پاکستان سے دی گئی قربانیوں کا جنازہ نکالنے کا حق حکومت وقت کیسے لے سکتی ہے؟یا کوئی بھی کیسے لے سکتا ہے؟
ہم گیت گائیں
ہم گنگنائیں
ہم ترانے گائیں
مگر یہ تو جانیں کہ کشمیر کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ تاکہ اس کے حل کی طرف فوری پیش رفت کی جاسکے۔لاشوں کا یہ کھیل اور مزید کب تک جاری رہے گا آخر کب تک؟