زندہ ہے پر مانگ رہی ہے جینے کی آزادی
دیو کے چنگل میں شہزادی یہ کشمیر کی وادی
شاید ایسے اک میت پامالی سے بچ جائے
ماں نے کمسن بچی کی دریا میں لاش بہا دی
کشمیر کی خوبصورتی پر بہت کہا گیا، بہت سنا گیا، بہت مثالیں دی گئیں، بہت شاعری کی گئی،بہت ترانے لکھے گئے بہت فسانے بنائے گئے، جس کی وجہ سے کشمیر پر ہونے والے ظلم سے دنیا کا بچہ بچہ آگاہ ہے مگر آج میں کشمیری عورت کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زندگی کے کرب کو الفاظ کا پیراہن اوڑھا کر دنیا کی تمام عورتوں سے مخاطب ہوں کیونکہ مجھے نہ عالمی طاقتوں سے سروکار ہے نہ بے حس اور بے ضمیر لوگوں سے کوئی امید ہے۔ میرا درد’’میرا دکھ‘‘ میرا کرب، میری تکلیف اور میری اذیت صرف ایک عورت سمجھ سکتی ہے۔ میری زمین میری قیام گاہ جسے اہل دنیا وادی کشمیر کہتے ہیں جس کا حسن بے نظیر ہے اور خوبصورتی کی گواہی یہاں کے بلند و بالا پہاڑ دیتے ہیں جن پہاڑوں کی اوٹ میں بادلوں کے ننھے ننھے ٹکڑے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں، جہاں پتھروں کے بیچوں بیچ آبشاروں میں سے چمکیلی چاندی سے مشابہ پانی گنگناتا ہوا بہتا ہے وہ وادی کشمیر جہاں پر برستی بارش کی ننھی ننھی بوندیں جب زمین کو چھوتی ہیں تو زمین کی ہریالی سے نکلنے والے مختلف رنگوں کے پھول دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دیتے ہیں، وہ وادی کشمیر جہاں سے گزرتی ٹھنڈی ہوائیں جنت کی یاد دلادیتی ہیں۔سرو اور صنوبر کے درختوں پر اڑتے چہچہاتے نیلے، ارغوانی پرندے آزادی کے ترانے گنگناتے ہوئے یہاں کے کشمیریوں کو آنے والے وقتوں میں آزادی کی نوید سنا جاتے ہیں۔ یہاں کے دریاؤں پر جب سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو سنہرے پانی پر ننھے جگنو چمک اٹھتے ہیں کشمیر کے باغوں میں کھلتے گل چاندی، گل لالا اور گل داؤدی کی بھینی خوشبو سے فضائیں معطر رہتی ہیں۔ آو میری سہیلیو! اب میں تم کو بتاتی ہوں اس وادی کشمیر کو بھارتی درندہ صفت انسانوں اور دہشت گردوں نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔
میری وادی جسے دنیا میں اللہ تعالی نے جنت کے روپ میں بنایا ہے اس میں اللہ کی سب سے پیاری تخلیق انسان کی خون ریزی کا عمل کئی عشروں سے جاری ہے جہاں ہر دن نئی قیامت اور ہر رات نیا ظلم برپا ہے۔ مجھے دیکھو میں اس ماں کی صورت ہوں جس کے سامنے اس کے کڑیل جوان بیٹے کو گولیوں کی بوچھاڑ سے بھون کر رکھ دیا جاتا ہے کہ اس کے تڑپتے جسم سے نکلتے دھوئیں سے وہ ہوائیں جو اٹکھیلیاں کرتی گزرتی تھیں اب دھوئیں سے بھری رہتی ہیں۔میں وہ ماں ہوں جس کے بیٹوں کی آنکھیں سرخ دہکتے لوہے کی راڈ سے بے رحمی اور بے دردی سے نکال کر میری بصارت کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا جاتا ہے کہ پھر پیلے ،گلابی اور جامنی رنگے گل داؤدی، گل چاندی اور گل لالہ کے پھول صرف سیاہ نظر آتے ہیں۔
پوری دنیا میں بسنے والی میری بہنو! مجھے دیکھو میں وادی کشمیر کی وہ معصوم بچی ہوں جو اپنے ننھے ہاتھوں سے گڑیا کے دلکش،رنگ برنگے فراک سلائی کرتی ہوں مگر یہ ظالم وحشی میرے ہی وجود کو برہنہ کرکے گلی گلی میں گھماتے ہوئے اپنی ناکام فتح کا جشن مناتے ہیں اور میرا باپ مجھے ہی میری اذیت سے نجات دلانے کے لئے ان دریاؤں کے حوالے کر دیتا ہے جن کے پانی پر سورج کی کرنوں سے چمکنے والے جگنو میرے مردہ وجود کو سہلاتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اپنی چمک دمک کھو دیتے ہیں۔ میری بہنو! میں وہ سہاگن ہوں جسکو اپنے سہاگ کی آنکھوں کے سامنے یہ بھیڑئیے بے دردی سے گھسیٹ کر سر سے چادر اتار کر عزت تار تار کرکے اپنی بربریت پر فخر کرتے ہیں۔ میری ساقط آنکھوں سے بہتے خاموش آنسوؤں سے نکلتی آہیں ہواؤں میں شامل ہو جاتی ہیں جو سریلے نغمے گنگنانے کی بجائے ان سسکیوں سے سرسراتی ہیں۔
میری بہنو! میں وادی کشمیر میں رہنے والی وہ بہن ہوں جس نے بھائی کی شادی کے کتنے خواب اپنی آنکھوں میں سجا ڈالے تھے مگر ان خوابوں کی تعبیر میں جوان بھائی کا ٹکڑے ٹکڑے کٹا جسم ملا ،جس پر دول دلہے کاسہرہ سجانے کے لیے نہ چہرہ ملا نہ گردن ملی۔میں کشمیر کی وہ بیٹی ہوں جس کی عصمت کو اس کے باپ کی آنکھوں کے سامنے پامال کیا گیا اور باپ یہ صدمہ برداشت نہ کر کے ہمیشہ کے لئے ذہنی توازن کھو بیٹھا۔دنیا کی تمام ماؤں سنو! میں کشمیر کی وہ ماں ہوں جس کے نومولود شہزادے کو گود سے کھینچ کر گرم ابلتے پانی میں پھینک کر ننھے وجود کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔ میں بھارتی درندوں ، دہشتگردوں کے ظلم اور تشدد میں گھری وہ عورت ہوں جو اس دنیا کی تمام عورتوں سے رو رو کر التجا کر رہی ہے کہ میرے درد کو سمجھو، مجھ پر ہونے والے ظلم کے خلاف مل کر باہر نکلو مجھے اس قید قفس سے آزادی دلواؤ، میری خاموش زبان کے الفاظ بنو کیونکہ میں جانتی ہوں اگر دنیا کی تمام عورتیں متحد ہو جائیں اور اس وادی کشمیر کی آزادی کے لیے پکار اٹھیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر کالا لبادہ اوڑھ لیں تو تمام عالمی طاقتیں مجبور ہو جائیں گی اور ان درندوں کو میری وادی سے نکال باہر کریں گی یہ لہو ابلتے چشمے پھر سے گنگنا اٹھیں گے ، خون آلود فضائیں پھر سے مہکنے لگیں گی، کوہساروں کے اوپر سے قوس و قزح نکھرنے لگے گی۔۔میرا اجڑا ہوا سنسان گھر پھر سے آباد ہوجائے گا میری بہنو!میرے لیے ایک قدم تو اٹھاؤ کہ پوری دنیا کا پہیہ جام ہو جائے گا اب تم آگے بڑھو۔۔میری غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالو اور ان وحشیوں سے مجھے نجات دلاؤ اور زرا سوچو کہ دنیا کی ہر ماں کی کوکھ کی ویرانی کا غم ، ہر بہن کی بھائی سے جدائی کا صدمہ،ہر بیٹی کے باپ کے سائے کی محرومی کا دکھ، ہر سہاگن کے سہاگ کی دوری کا دکھ سانجھا ہوتا ہے۔
حوا کی بیٹیوں کو اب سکون ملتا ہے مرگھٹ پر
یہ دنیا ہو گء زنداں، ابھی آزادی باقی ہے
لہو بہتا ہے اب تک شہر کے آباد رستوں پر
بہت گھر ہو گئے سنسان، ابھی آزادی باقی ہے۔