بھارت کے جبر اور ظلم و ستم کی وجہ سے کشمیری قوم جاں گسل آزمائشوں کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی ہے۔صدیوں سے بیرونی تسلط اور اپنے جابر حکمرانوں کی ریشہ دانیوں کا شکاررہنے والی کشمیری قوم گزشتہ دو سال سے جس تکلیف اور قرب سے گزر رہی اس سے ہم بخوبی واقف ہیں۔معصوم بچے،بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں۔کتنی تکلیف ہوتی ہے جب آپ کو اپنے ہی ملک میں میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے۔سکول،کالجز،یونیورسٹیاں اور ہسپتال سمیت ہر چیز کو تالے لگا دیے گئے۔نوجوانوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا،عورتوں،بچوں کو دریندگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے،نریندر مودی کے غنڈے عورتوں کی عصمت دری کر رہے ہیں،حریت قیادت کو نظر بند کر دیا گیا۔خوراک اور ادویات کی کمی کے باعث شہری زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔یہ اس صدی کا سب سے بڑا ظلم ہے،ایک ظلم کربلا میں دیکھا تھا اور اب ایک ظلم کشمیر میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔آج کشمیری عوام کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے 72 سال گزر گئے اپنی آزادی کی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے لیکن نریندر مودی اور ان کی دہشتگرد فوج ان کے حوصلے پست نہ کر سکی جتنا زیادہ ظلم کیا جاتا ہے اس کی پرواہ کیے بغیر کشمیر ی قوم ہمت و حوصلے سے نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔سانحہ کربلا میں ایک طرف یزیدیت تھی اور دوسری طرف حق اور سچ پہ کھڑے ہوئے امام حسین،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر جیت کس کی ہوئی۔آج یزید ساری دنیا میں رسوا ہو رہاہے لیکن امام حسین کا نام تاریخ میں ہماری نصابی کتب میں سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کشمیری عوام اور نریندر مودی کی مثال ہے ایک طرف نریندر مودی یزید کی شکل میں کھڑا ہے اور دوسری طرف حق اور سچ پر کھڑی کشمیری عوام اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو ایک نہ ایک دن وہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔کشمیری عوام کی آہ و پکار کو شاید عرش والے نے سن لیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان میں خالصتان کی تحریک نے پورے ہندوستان کوپریشانی میں مبتلا کر دیا،لال قلعہ سے ہندوستان کا جھنڈا اتار کر وہاں خالصتان کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان ٹکڑوں میں تقسیم ہو گا اور نریندر مودی کے خلاف چھوٹی چھوٹی تحریکیں سر اٹھائیں گی اور یہی سے ہندوستان کی بربادی شروع ہو گی۔
مردہ عالمی ضمیر جگانے اور اقوام متحدہ کو یہ یاد دلانے کیلیے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے محکم و مظلوم عوام کو آزدانہ رائے شماری کے ذریعہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کیلیے5 جنوری 1949 کو سلامتی کونسل نے جو متفقہ قرارداد منظور کی تھی اس پر 72 سال بعد بھی عملدرآمد نہیں ہو سکااور اسی لیے ہر سال 5 جنوری کو دنیا بھر کے اندر بسنے والے کشمیری مقبوضہ وادی کے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلیے یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں تاکہ وہ ان کو یقین دلا سکیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں اوران کو حوصلہ مل سکے کہ وہ اکیلیے نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم ممالک کی عوام بھی ان کے ساتھ ہے۔1989 سے لے کر اب تک بھارت نے تقریبا ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا،ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں،لاکھوں بچے یتیم ہوئے،لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے،سات لاکھ بھارتی افواج مسلسل کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے، انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے،اور اب دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا کشمیری عوام کرفیو میں قید ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہاں ہیں وہ مسلمان جو کبھی انسان کا درد محسوس کرتے تھے،کہاں ہیں وہ نمازی جن کی دعاؤں میں قبولیت تھی،کہاں ہیں وہ سجدیں جن میں اتنی طاقت ہوا کرتی تھی کہ خدا کوئی دعا بھی رد نہ کرتا تھا،کہاں ہیں صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اور خالد بن ولید جن کے اندر جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ان سب کا جواب ایک ہے وہ ہے اسلام اور دین سے دوری،نہ تو کشمیر کیلیے ہماری دعا قبول ہوئی اور نہ ہی جذبہ جہاد رکھنے والا کوئی مرد مجاہد میدان میں آیا۔اقتدار کے نشے میں ڈوبے حکمرانوں نے شاید کشمیر کا سودا کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر پلیٹ فارم پر یہ کہا جا رہا ہے کہ کہ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا حل چاہتے ہیں مطلب کہ اگر کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ حل نہیں کرے گا جو کہ یقینی بات ہے تو ہم کشمیر کیلیے ہاتھ باندھ کر بیٹھے رہیں گے،ان سب سے ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا کیونکہ ہم نے اسی اقوام متحدہ کے رحم و کرم اور بھارت کی دہشتگرد فوج کے حوالے کر دیا ہے۔
ماضی میں بعض مواقع پر پاکستان اور ہندوستان مسئلہ کشمیر پرکسی نتیجہ کے قریب پہنچی مگر وہ لیاقت علی خان اور نہروکے درمیان سلسلہ جنبانی ہو یا جنرل پرویز مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان بات چیت کے نتیجے میں اجاگر ہونے والافارمولا ہو،یہ کاوشیں اس لیے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں کیونکہ ان میں خود کشمیری شامل نہیں تھے۔آج بھی کشمیر کا مسئلہ باوجود اس کے کہ ہندوستان من مانی کر کے بڑی حد تک اپنے لیے استوار کر چکا ہے اور باوجود اس کے کہ پاکستان کسی بڑے بریک تھروکی تلاش میں ہے،یہ گتھی سلجھناصرف اسی وقت شروع ہو گی جب اس میں کشمیری اور ان کی تنظیمیں خود فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آئیں گی،اور ان کے اس کردار کو ہندوستان اور پاکستان دونوں تسلیم کریں گے۔