رات کےساڑھے دس بجے جب میں سونے کے لئے لیٹ چکی تھی تو میرے تکیے تلے پڑے موبائل پر میسج ٹون بجی میں نے دیکھا جماعت اسلامی حلقئہ خواتین سے میسج تھا ” یوم یکجہتی کشمیر ریلی کی اطلاعات دینی ہیں سب کو اور بہت بھرپور حاضری کو یقینی اور اس ریلی کے پیغام کو موثر بنانا ہے ان شاء اللہ میرے لبوں پر اک مسکراہٹ آئی اور دل نے کہا آفرین ہے جماعت اسلامی کے مقاصد اور ان کے حصول کی مسلسل جدوجہد پر ملکی سیاست کی کینہ پرور فضاؤں اور انکے خلاف چلائی جانے والی سازشی ہواؤں میں بھی کبھی اس جماعت کے اپنے موقف سے پاؤں نہیں اکھڑے۔
بات پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام ہو، اسکی سالمیت کی ہو یا پھر دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے آزادی حق کے لئے آواز اٹھانے کی ۔جماعت اسلامی ہمیشہ سب سیاسی و سماجی خدمت اور انسانی حقوق کی علمبردار جماعتوں سے آگے رہی ہے میری سوچ ماضی میں بہت برس پیچھےچلی گئی یہ 5 فروری 1990 کا دن تھا جب امیر جماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمدنےحکومت وقت سے پہلی بارمطالبہ کیا تھا کہ ہمیں بھی کشمیریوں سے تجدید عہد کے لئے ایک دن مقرر کرنا ہوگا قاضی صاحب نے یہ فیصلہ کشمیر میں ہونے والی عسکری تاریخ کے پس منظر میں کیا تھا چونکہ اس وقت کشمیریوں نے اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق خود بھی یہی فیصلہ کرلیا تھا کہ اب برسوں سے کشمیر پر ظلم ڈھاتی قابض فوج کے خلاف بندوق اٹھانی ہی ہوگی کشمیری مجاہدین کا یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور احادیث کی پیروی میں تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ” جب کسی پر ظلم ہوتا دیکھو تو اپنی طاقت کے مطابق آگے بڑھ کر ہاتھ سے روکو اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہو تو کم از کم اسے دل میں برا ضرور جانو اور یہ ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے۔
کشمیریوں کے صبر و برداشت کی انتہا ہوچکی تھی لہذا انھوں نے اعلان جہاد کرتے ہوئے بندوق اٹھالی جماعت اسلامی بھی انکے ساتھ اپنے ایمان کی طاقت پر بندوق اٹھا کر جہاد کرنے کو تیار تھی مگر حکومت وقت چونکہ اقوام متحدہ کی دوغلی پالیسیوں کی پابند تھی ( جو ہمیشہ ہر حکومت رہتی ہے) مجبورا قاضی صاحب نے ایمان کے دوسرے درجے پر آکر بھارتی جارحیت کو للکارتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کرڈالا اور فورا مظلومیت کا ساتھ دینے اور مجاہدین کشمیر کا حوصلہ بڑھانے کے لئے حکومت وقت سے مطالبہ کرڈالا کہ اب 5 فروری کا دن ہمیں کشمیریوں کی آذادی تک ہر سال ان کے ساتھ اپنی یکجہتی کے اعلان کے طور پر منانا ہوگا اس دن ہم خاص طور پر نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی پامالی کرکے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والے بھارت بلکہ اقوام متحدہ کے کانوں تک بھی یہ پیغام پہنچانے رہیں گے کہ کشمیر تنہا نہیں پاکستان اس کے ساتھ ہے جماعت اسلامی اس کے ساتھ ہے الحمدللہ!! قاضی حسین احمد کی اس کال پر تمام سیاسی جماعتیں ، حکومت وقت کی وزیراعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو اور پنجاب کے وزیر اعلٰی نواز شریف بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے( ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ مسلہء کشمیر پر کسی بھی سیاسی جماعت کا اختلاف رائے نہ تھا) اور پھرآئندہ سالوں میں یہ دن ایک فرض ایک پکار اور ایک مہم کے طور پر بڑے جوش وخروش سے منایا جانے لگا#
ہر سال جماعت اسلامی اس دن کی کال پہلے سے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ نہ صرف پاکستان کے گوشے گوشے تک پہنچاتی ہے بلکہ پوری دنیا کے ہر خطے کے مسلمان اس دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اپنی آواز اٹھاتے ہیں اور اس میں جماعت اسلامی حلقئہ خواتین بھی ہمیشہ انکے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے ریلیوں کے انتظام ہوتے ہیں پریس کلب اور بین الاقوامی سفارت خانوں کے سامنے کشمیر کی آزادی کے حق میں بیانات ریکارڈ کرائے جاتے ہیں اور یہ سب جماعت اسلامی کے تمام ( مردوخواتین) کارکنان بہت منظم انداز میں کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور ان کے جسم کا ایک حصہ مقبوضہ کشمیر برسوں سے تکلیف میں ہے جسکا درد ان کے دلوں کو غمگین اور آنکھوں کو آنسوؤں سے نمکین کئے ہوئے ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہم آج تک ایمان کے دوسرے درجے پر کھڑے مظلوم کشمیر کے ساتھ صرف زبانی کلامی اظہار یکجہتی منارہے ہیں کاش ہماری حکومتیں کبھی ایمان کے پہلے درجے پر جاکرسوچیں اوربھارت کے ظلم ڈھاتے ہاتھوں کو بہ زور طاقت کاٹ ڈالیں مجھے یقین حکومت وقت نے جب بھی اپنے اور بھارت کے جنگی ہتھیاروں کا موازنہ کرکے خود کو کمزور سمجھنا چھوڑ دیا اور یہودونصاری کے دباؤ سے باہر آکر دل سے نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کرتے ہوئے انھیں اپنا دوست بنانے کی بجائے دشمن سمجھکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے غزوہ بدر کی حقیقت جان کر جہاد فی سبیل اللہ کی کال دیدی تو جماعت اسلامی اس کے ساتھ کھڑی ہوکر نہ صرف کشمیر بلکہ دنیا کے ہر مظلوم اور غلام وطن کو آزاد کرانے میں اپنی جانیں اپنے مال اور اپنی اولادیں پیش کرنے والی پہلی جماعت ہوگی ۔ان شاء اللہ
اللہ کرے پاکستان کو جلد ایسی دیندار اور بہادر قیادت نصیب ہو آمین ۔ بہرحال کشمیر کی آزادی تک ہم ہر روز اور خصوصا 5 فروری کو اسکے ساتھ اظہار یکجہتی منانے کے لئے گھروں سے باہر آکر بھارتی جارحیت کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے ۔ میں آجکل گھر سے ہجوم میں بوجہ بیماری تو نہیں نکل سکتی مگر اس مہم میں میری شمولیت فرض تھی سو میں نے قلم اٹھایا اور کہہ ڈالا
اے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں اے کشمیر کی بہادر بیٹیو!!
بہنوں اور ہر روز اپنے بیٹے قربان کرنے والی ماووں ہم تمھارے درد میں برابر کی شریک ہیں اور تمھاری آزادی کے لئے دعائیں کرتی اپنی آواز اٹھاتی ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔ میں جماعت اسلامی حلقئہ خواتین کے پلیٹ فارم سے حکومت وقت اور تمام سیاسی سماجی اور انسانی حقوق کی علمبردار جماعتوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہماری ہم آواز ہوکر اقوام متحدہ کو قرارداد پیش کریں بلکہ اس سے اس قرارداد کو منظور کروائیں کہ وہ بھارتی فوجی جارحیت اور ان کے مظالم سے کشمیر کو جلد از جلد نجات دلا کر آزاد کرائیں ۔