بی بی شہید کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو اور مریم بی بی کو ایک ساتھ دیکھ کر اس بات کی صداقت پر عین الیقین ہو چلا کہ واقعی جمہوریت’’حسین‘‘ہے۔یہ جمہوریت کا ہی حسن ہے کہ ایسے حسین معجزات رونما ہو رہے ہیں وگرنہ تو یہ نہ کام کے اور نہ کاج کے۔ساتھ ہی ساتھ پی ڈی ایم کے روح رواں کم ’’روح لحیم شحیم‘‘مولانا فضل الرحمن کا برسی میں شمولیت سے انکار بی بی شہید کے اس قول کے صداقت کی دلیل ہے کہ
’’جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے‘‘
سچ ہے زرداری صاحب نے کسی سے انتقام لینا ہو تو اسے دانت نکال کر دکھا دیتے ہیں اور اگر دانت نہ نکالیں تو سمجھ جائیں کہ اب مخالفین کے دانت نکلنے والے ہیں۔مریم بی بی نے کسی سے سیاسی بدلہ لینا ہو تو بس میک اپ کر کے اپنے آپ کو بدل کر آجاتی ہے۔لیکن جس روز مریم بی بی نے سچ میں عوامی انتقام کا سوچ لیا تو اس دن جلسہ گاہ میں بغیر میک اپ چلی آئے گی۔اس لئے عوام کا یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جس دن مریم بی بی بنا میک اپ جلسہ گاہ کی زینت بنیں گی اس دن جلسہ میں کوئی نہیں بچے گا۔
چاہئے سو جو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا صاحب جب کسی سے سیاسی انتقام لینا چاہتے ہوں تو وعدہ کر کے جلسہ گاہ میں یا تو پہنچتے ہی نہیں یا پھر تاخیر سے آتے ہیں۔ان کا کہنا یہ ہے کہ
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا
وہ ادھار ہی کیا جو ادا ہو گیا
اس لئے مولانا صاحب کسی سے وعدہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور لوگ مولانا صاحب سے ادھار سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ویسے مولانا صاحب میں دو خوبیاں بدجہ اتم پائی جاتی ہیں ،ایک تاخیر سے جاتے ہیں اور دوسری جہاں جاتے ہیں وہاں کی خیر نہیں ہوتی۔مولانا صاحب تو کمزور سٹیج اور چارپائی پر قدم نہیں رکھتے کہ ان کے وزن سے کہیں وہ بیٹھ ہی نہ جائیں۔یہ خوبی تو مولانا میں ہے کہ جب وہ کسی کے حق اور ’’گوڈوں‘‘ میں بیٹھ جائیں تو پھر انہیں سوائے خدو کے اور کوئی نہیں اٹھا سکتا۔مولانا کا کہنا ہے کہ جیسے ڈیزل بغیر گاڑی نہیں چلتی ویسے ہی میرے بنا پارلیمنٹ کا چلنا محال ہے۔اسی لئے مولانا صاحب پارلیمنٹ سے باہر ہوں تو ڈیزل پہ چلتے ہیں اور پارلیمنٹ کا حصہ ہوں تو ’’ڈیزل‘‘ان کی مرضی سے چلتا ہے۔اسی لئے جناب کو پارلیمنٹ اور تحاریک کا ڈیزل کہا جاتا ہے۔
مریم بی بی اور بلاول باوا میں ایک قدر ،قدرے مشترک ہے کہ دونوں کے دانت قدرتی اور مسکراہٹ مصنوعی ہے۔دونوں کا آپ کسی بھی جلسہ میں دیکھ لیں ایک مسکرا رہا ہوتا ہے اور دوسرا لگتا ہے کہ دانت نکال رہا ہے۔گویا بلاول مسکرا رہا ہو تو لگتا ہے منہ چڑا رہا ہے اور مریم مسکرا رہی ہو تو لگتا ہے کہ منہ چڑا رہی ہے۔بلاول باوا جب کھلکھلا کے ہنستا ہے تو زبان بھی دانتوں کے اندر سہم سی جاتی ہے کہ کہیں بھی منہ سے نہ نکال دے۔نکالنے سے یاد آیا کہ آجکل میاں صاحب خامشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔شائد انہیں’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ راس آگیا ہے۔
ویسے آجکل جیسے مریم بی بی عمران خان کی نقل اتارتے ہوئے ہنستی ہے تو لگتا ہے کہ ان کی زبان دانتوں سے شکوہ کناں ہوتی ہوگی کہ دانت رے دانت ذرا سائیڈ کرانا مجھے دیکھنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے میں لوگ زیادہ ہیں کہ DJ شور۔
پچھلے دنوں D J کو حکومت نے دھر لیا تو مجھے خان صاحب کا دھرنا یاد آگیا،دیکھئے قسمت کیا کچھ کروا دیتی ہے، خان حکومت میں نہ ہو تو DJ دھرنے میں ہوتا ہے اور اگر حکومت میں ہو تو ’’دھر‘‘ لیا جاتا ہے۔پی ڈی ایم کے اکثر راہنمائوں کا خیال ہے کہ مل جل کر تحریک چلائی جائے اسی لئے ان کے درمیان دن بہ دن ’’میل جول ‘‘بڑھتا جا رہا ہے۔لیکن میری سمجھ میں ایک بات نہیں آرہی کہ اگر پی ڈی ایم تحریک کامیاب ہو جاتی ہے اور وہ وزیر اعظم کو گھر بھجوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں (ویسے تو خان صاحب روزانہ ہی اپنے گھر جاتے ہیں )،تو گیارہ جماعتوں کا اکٹھ مخلوط حکومت کیسے ترتیب دے گا۔یہ پی ڈی ایم کے لئے میرے خیال میں سب سے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ منصب و عہدوں کی تقسیم کیسے کریں گے۔یہ بات میرے کند ذہن میں اس لئے آئی کہ ہمارے سیاستدانوں کو تو ’’تقسیم‘‘کی عادت ہی نہیں ہے وہ تو ریاضی میں صرف’’ضرب‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ۔ہمارے اکثر سیاستدان تو حساب کا مضمون اس لئے نہیں پڑھتے کہ انہیں ’’حساب کتاب‘‘دینا پسند نہیں۔
جی تو میں سوچ رہا تھا کہ مخلوط حکومت کیسے ترتیب دی جائے گی۔کیا مولانا صاحب مستقل کرسی صدارت پر براجمان رہیں گے یا پھر جمعہ کے جمعہ۔مریم بی بی رات کی اور بلاول دن کا وزیر اعظم ہوگا یا پھر معکوس حکومت۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے اجداد کی طرح ’’باری باری ‘‘کے لئے قرعہ اندازی کی جائے گی کہ دونوں میں سے کون پہلے اور کون بعد میں حکومت کرے گا۔بقیہ کھلاڑی کون سی پوزیشن پر براجمان ہوں گے کیونکہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ بقیہ سب احباب صرف فیلڈنگ پہ ہی اکتفا کریں۔ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب پی ڈی ایم کو مخالف حکومت گرانے سے قبل سوچنے ہوں گے وگرنہ ان کی باری پر ایک پی ڈی ایم اور بھی بن سکتی ہے۔