ایک لکھاری بہن نے بتایا کہ اس نے ملک کے ایک مشہور روز نامہ میں لکھنے کے لیے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ:
“آپ مذہبی ذہنیت رکھنے والی خاتون ہیں۔ اگر ہمارے اخبار کے لیے لکھنا ہے تو آپ اخلاقی سبق کے طور پر اسلامی مفہوم تو دے سکتی ہیں لیکن تحریروں میں قرآن و حدیث کی باتیں نمایاں نہیں رکھ سکتی۔” حالانکہ اس اخبار کا ایڈیٹر، چیف ایڈیٹر،اور مالکان سب مسلمان اور پاکستانی ہیں۔
اسی طرح مجھے بھی ایک بار ایک ماہنامہ ڈائجسٹ کی مدیرہ نے کہاکہ “اگر آپ اپنی تحریروں میں مذہبی رنگ دیں گی تو لوگ انہیں پڑھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور اسے ایک مذہبی اور بور تحریر سمجھ کر چھوڑ دیں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ صرف قرآن و حدیث کی باتوں سے ہی دور بھاگتے ہیں وہ اس وقت کیوں نہیں بھاگتے جب ہم دلائل میں مغربی مفکرین کے اقوال لکھتے ہیں۔
مجھے تو اس کی صرف یہی ایک وجہ محسوس ہوتی ہے اور وہ ہے ہماری اپنی ذہنی پسماندگی۔۔۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دین اسلام کی تعلیم ہر لحاظ سے بہترین اور جامع ہے۔ اگر ہم اپنی تحریروں میں قرآن و حدیث کے پیش کردہ اسلوب بیان کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ قاری اگر مسلمان ہے تو صراط مستقیم کے بارے میں آگاہی حاصل کر لے۔اور اگر غیر مسلم ہے تو شاید ہمارے دین کی حقیقت کو جان لے۔
میں یہاں مثال دوں گی دو ترک ڈراموں کی، ڈرلیش ارتغرل اور پایہ تخت سلطان عبد الحمید کی ، یہ دونوں ڈرامے نہ صرف ترکی میں مشہور ہوئے بلکہ پوری دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ اپنے نام کیے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی کبھی کسی پاکستانی ڈرامے نے بھی اتنی پذیرائی حاصل نہیں کی جتنی ان دونوں ڈراموں نے حاصل کی ہے۔ ان ڈراموں کی خاصیت یہ ہے کہ ان نے مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کو بیدار کیا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا سبق دیا۔ اور آپس کی نااتفاقی کا انجام بھی دکھایا۔ غداروں کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ بھی بتایا۔ اور دکھایا کہ مسلمان طاقت واسباب کی بجائے مضبوط ایمان اور اللّہ تعالیٰ پر بھروسہ کے بل بوتے فتح حاصل کرتے ہیں۔ بہادری و شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ حق کا بول بالا ان کا مقصد زندگی ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں ڈراموں میں تذکیر و نصیحت بار بار ہے قولی بھی اور فعلی بھی۔ درس و تدریس بھی موجود ہے اور قرآن و حدیث کے دلائل بھی کھلم کھلا دیے گئے ہیں۔ ان ڈراموں کے ہیروز کو خود بھی جہاد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس بات پر زور دیتے دکھایا ہے کہ مسلمانوں کی سلامتی، شان اور عروج جہاد میں ہی پوشیدہ ہے۔ ان میں صہیونی طاقتوں کی مسلمانوں کے خلاف مکار بازیوں اور چالوں کو بے نقاب کیا ہے۔ جو اس وقت کا نہیں بلکہ آج کے دور کا احوال معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یورپ نے ان ڈراموں کو اپنے خلاف خاموش ایٹم بم قرار دیا ہے۔
ان ڈراموں نے ثابت کر دیا ہے کہ چاہے کوئی کالم ہو یا مضمون، افسانہ ہو یا ڈرامہ، جس میں بھی اللّہ تعالیٰ اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احکامات کو اہمیت دیں گے وہ دلوں پر اپنا اثر و رسوخ بھی ڈالیں گے اور کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑھیں گے۔ یہی تو لبرل وسیکولر یا اسلام دشمن نہیں چاہتے۔ اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ان کی چاہ کے مطابق چلنا ہے یا خلیفتہ اللہ کے بلند پایہ مقصد کے تحت؟؟؟؟۔