چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور حالیہ وبائی صورتحال میں جب دنیا
کی دیگر تمام بڑی معیشتیں شدید دباو کا شکار ہیں ، چین کی جی ڈی پی
100ٹریلین یوان مطلب 15.42ٹریلین ڈالرز سے متجاوز رہی ہے جس سے
چین کی معاشی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔چین کی جانب سے
ہمیشہ یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ اقتصادی عالمگیریت کو فروغ دیا جائے اور
ترقی کے عمل میں دنیا کے تمام ممالک بالخصوص ترقی پزیر اور کم ترقی
یافتہ ممالک کو شامل کیا جائے۔چینی قیادت نے تمام عالمی پلیٹ فارمز پر بھی
بالادستی ،تجارتی تحفظ پسندی اور یکطرفہ پسندی کی ہمیشہ کھل کر مخالفت
کی ہے ۔چین کثیر الجہتی اور اشتراکی اقتصادی سماجی ترقی کا داعی ہے ،
چاہے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ہو یا پھر اقوام متحدہ اور جی ٹونٹی جیسے بڑے
بین الاقوامی پلیٹ فارمز ،چین ترقی پزیر ممالک کا بہترین نمائندہ بن کر سامنے
آیا ہے۔
ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے ورلڈ اکنامک فورم "ڈیووس
ایجنڈا" میں شرکت کی اور خصوصی خطاب کیا ۔کووڈ۔19کی وبائی صورتحال
میں ان کی شرکت اور خطاب یقیناً دوررس اہمیت کا حامل تھی۔ انہوں نے دنیا
کو امید دلائی کہ انسانیت کووڈ۔19 کے خلاف جدوجہد میں فتح یاب ہوگی۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف ممالک کی تاریخ
، ثقافت اور معاشرتی نظام میں فرق قدیم زمانے سے ہی موجود ہے ، یہ انسانی
تہذیب کی موروثی خصوصیت ہے ۔ تنوع کے بغیر انسانی تہذیب کا
تصورنہیں کیا جاسکتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے مختلف معاشرے
سیاسی استحکام، سماجی ترقی اور عوامی زندگی کی بہتر ی کو کیسے عمل
میں لاسکتے ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب میں غرور ، تعصب اور نفرت کو
خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانی تہذیب کو مختلف درجوں میں تقسیم
کرنا خوفناک ہے اور اپنی تاریخی ثقافت اور معاشرتی نظام کو دوسروں پر
مسلط کرنا خطرناک ہے۔ ممالک کو باہمی احترام کی بنیاد پر پرامن بقائے
باہمی کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور اختلافات کے باوجود
مشترکہ تصورات کاتحفظ کرنا چاہیے ،تاکہ ممالک کے مابین تبادلے کو
فروغ ملے اور انسانی تہذیب کی ترقی اور پیشرفت ممکن ہو۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے ایک مرتبہ پھر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کی
آواز بلند کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا کہ محدود وسائل کے حامل ممالک کی
ترقی کے لئے لازمی مدد فراہم کی جائے ، ترقی پذیر ممالک کے جائز ترقیاتی
حقوق کا تحفظ کیا جائے ، برابری کی بنیاد پر مساوی حقوق ، مساوی مواقع
اور مساوی قواعد کو فروغ دیا جائے تاکہ تمام ممالک کےعوام ترقی کے
مواقع اور کامیابیوں کا تبادلہ کر سکیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ انسانیت کو درپیش تمام عالمی مسائل سے کوئی بھی
ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے عالمی اقدام ، عالمی
ردعمل اور عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔عہد حاضر میں علیحدہ بلاکس
بنانے ، نئی سرد جنگ کی شروعات ، بالادستی اور دوسروں پر پابندیاں عائد
کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس سے دنیا مزید تقسیم ہو گی اور تنازعات
جنم لیں گے۔ چینی صدر شی جن پھنگ کے مطابق کثیرالجہتی کی کلید یہی
ہے کہ بین الاقوامی امور تمام ملکوں کی مشاورت سے حل کیے جائیں۔ایک
منقسم دنیا انسانیت کو درپیش مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے ،
اور محاذ آرائی انسانیت کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ
عالمی گورننس کا انتظام محض چند ممالک تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ
تمام ممالک میں رائج قوانین اور بین الاقوامی اتفاق رائے کی روشنی
میں گورننس کی حمایت کی جائے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں تاریخ
اور حقائق سے سیکھنا چاہیے ۔موجودہ دنیا اگر محاذ آرائی کی غلط راہ پر
بدستور گامز ن رہے گی ، تو چاہے سرد جنگ ہو یا روایتی جنگ ، تجارتی
جنگ ہو یا تیکنیکی جنگ ، آخر میں مختلف ممالک کے مفادات اور عوام کی
خوشحالی ہی کو نقصان پہنچے گا۔ باہمی مفادات اور مشترکہ کامیابی کے
تصور کی روشنی میں تعاون کو فروغ دیا جائے، مختلف ممالک کے ترقیاتی
مفادات کا تحفظ کیا جائے، مقابلے کی بجائے منصفانہ مسابقت سے ایک
دوسرے سے آگے بڑھنے کی جستجو کی جائے۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ چین
دنیا کے وسیع تر مفاد میں اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا ۔چین عملی
اقدامات سے کثیرالجہتی پر عمل پیرا ہے اور کرہ ارض کے تحفظ اور پائیدار
انسانی ترقی کے عمل میں فعال شریک ہے۔چین مضبوطی سے پرامن آزاد
خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ فعال طور پر
دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔چینی صدر کے خطاب
کا خلاصہ یہی ہے کہ چاہے کووڈ۔19کا موجودہ بحران ہو یا پھر ایک بہتر
مستقبل کی تشکیل، بنی نوع انسان کو مل کر کام کرتے ہوئے اتحاد اور تعاون
سے آگے بڑھنا چاہیے اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کی
تعمیر کے لئے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئے۔