“اب تو بیس ہزار سپاہی بھی کافی تھے, کیونکہ سلطان صلاح الدین فوت ہوچکا تھا. مسلمانوں کی قوت منتشر ہوچکی تھی. متفرق مسلمان امیر, عیسائی فوج کے مقابلے میں نہیں ٹھر سکتے تھے.”
تاریخ کے اوراق جب میں پڑھنے بیٹھی تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی تاریخ پڑھنے کا شوق ہوا. پڑھتے پڑھتے میں ایک دم سکتے میں آگئی.آتی بھی کیوں نہ یہ جملا مجھے اس سے آگے بڑھنے نہیں دے رہا تھا. مجھے ایسے لگتا ہے کہ موجودہ زمانے کے لیے بولا گیا ہے. ہم سب کو شرمندہ کررہا ہے.
انتہائی طاقت بھری ہے اس جملے کے اندر…. سلطان صلاح الدین کے رعب سے کافر کتنا ڈرتے تھے. صلیبی تو سلطان کا نام سنتے ہی کانپ اٹھتے تھے. سلطان کے مرنے کے بعد وہ اتنے مطمئن ہوکر کہہ رہے کہ صلاح الدین فوت ہوچکا ہے تو اب مسلمان ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اب ان کے امیر ہی ایک دوسرے کے خلاف ہیں تو وہ ہم سے کیا لڑیں گئے.
بات صرف یہاں یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی حالت بھی ایسی ہے. ہمارے حکمران کیسے کافروں کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں, کیسے سر جھکاتے پھر رہے ہیں….کہی ہم سے کوئی غلط بیانی نہ ہوجائے جس کی وجہ سے ہم سے کافر حکمران کٹ نہ جائیں, کہی ہماری تجارتیں نہ بند ہوجائیں, ہم پر کوئی فوج کشی نہ کرلیں, ہم پر دباؤ نہ آجائے, کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے کافر سرداروں سے ڈرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہمارے عظیم سپاہ سلار, بادشاہ, لیڈر…..جو گزرے ہیں ان کے آگے کافر سر جھکائے پھرتے تھے. ہمیں اب ڈوب مرنا چاہیے, اس جملے گہرائی تک پہنچ کر زمین تلے دب جانا چاہیے.
جو پہلے کے کافر تھے مسلمانوں سے ڈرتے تھے اس کے برعکس آج کے کافر ہمارے اوپر شیر کی طرح حکمرانی کرتے ہیں, جو عظیم فاتح ہمارے گزر چکے ہیں وہ مسلمانوں کو اسلام کے جھنڈے کے نیچے یکجا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے جبکہ اب کے حکمران ایک دوسرے سے ہی لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں تو وہ ہمیں کہاں یکجا کریں گئے؟, جب سرپرست ایسے ہوں گے تو عوام بھی ان سے سبق حاصل کرے گئی, عوام میں یکجہتی کا رحجان ختم ہوگیا ہے. سب اپنے مفاد کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔سب اپنے آپ میں لگے پڑے ہیں۔ چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں رہی، حتی کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرچکے ہیں۔ صرف اپنی شہرت کمانے کے چکرمیں ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس عوام کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہئے کہ ہمیں اپنی اور اپنے ملک کی حفاظت کافروں سے کیسے کرنی چاہیے. ہمیں کافروں کے آگے سر جھکانا نہیں بلکہ ان پر غلبہ حاصل کرنا چاہیے. ہمیں کیسے کافروں کی چالوں کو انہی پر الٹنا ہے،کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کسی کا غلام نہیں ہے سوائے اللّٰہ رب العزت کے نہ کبھی مسلمان غلامی قبول کرسکتا ہے, مسلمان بھائی بھائی ہے جس کا مطلب ایک ہی لڑی ہے۔ اور اس ایک لڑی میں اگر مضبوطی ہوگئی تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی کیونکہ ایک امت ہیں. اسلام کے ماننے والے ہیں، ہم سب کے لیے قوانین بھی یکجا ہیں۔ اگر مضبوط بننا ہے تو اتحاد لازمی ہے۔غلبہ بھی کافروں پر اسی طرح آ سکتا ہے کہ ہم یکجا ہوکر اسلام کے لیے لڑیں۔ تاکہ کافر ہمارا بھی نام سن کر لرزا اٹھیں ن کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے کہ ہماری ایک غلطی یا قدم اٹھانے سے مسلمان سر کچل کر رکھ دیں گئے۔
کافروں کی جرات نہ ہوسکے کہ وہ ہم پر غلبہ حاصل کر سکیں. ایک مسلمان دس کافروں کا مقابلہ کرسکتا ہے اگر اس میں اللّٰہ کا خوف اور ایمان کا جذبہ تازہ رہے ہر مسلمان شیر کی مانند ہے اور شیر ایسا جانور ہے کہ وہ کسی سے ڈرتا نہیں بلکہ دوسروں کو ڈراتا ہے۔ تو کہنے کا مقصد یہاں یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے جو کافروں سے ڈرتا نہ ہو بلکہ ان پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہو اور ایسے حکمران اسی وقت جنم لیں گئے جب عوام یکجا اور عقل رکھتی ہوگی کہ آیا یہ حکمران ہمارے حق میں بہتر ہے کہ نہیں۔ عوام کے دل میں خوفِ خدا کا جذبہ پیدا ہوگا تو وہ مومن کہلائے گئی اور مومن جب ہوگی جب وہ ہاتھ سے یکجہتی کے دامن کو نہیں چھوڑے گی اور یاد رہے ایک مومن ہی دس کافروں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔صرف اور صرف اللّٰہ پر پختہ یقین ہوتے ہوئے۔!
•کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی