اسٹیون ایم کاہن کی کتاب، خدا مذہب اور منطق، جس میں اس نے جنت اور جہنم پر تمہید باندھنے سے قبل، مسئلہ شر، مسئلہ خیر، اور وجودِ خدا پر بحث کی ہے۔ اصل میں یہ سارے مسئلے ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں۔ جیسے خدا کے وجود سے ہے انسان کا وجود۔ انسان کا وجود، شر اور خیر کے دائرے میں گھومتا ہے۔ بالآخر، شر اور خیر کا فیصلہ ہے جنت و جہنم کا فیصلہ۔ اسٹیون کچھ فکری امور کے پیش نظر، جیسے کہ کونیاتی دلیل، غائی دلیل اور وجودی دلیل، خدا کے وجود سے ہوتے ہوئے مسئلہ شر اور پھر مسئلہ خیر پر آ ٹھہرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر خدا قادر المطلق ہے، ہر جوہر اس کے وجود کا شاہد ہے تو پھر اس دنیا میں شر کیوں کر پایا جاتا ہے؟ کیا ایسا خدا جو تمام طاقتوں کا مالک ہے، اور جو بڑا انصاف کرنے والا ہے، یہ برداشت کرسکتا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی دنیا میں اس کی تخلیق کردہ مخلوق دنگا فساد مچا کر رکھے۔ ظلم، قتل و غارت گری، زنا، بدکاری اور دھوکا دہی جیسے گناہ سرِ عام اپنے رنگ بھرتے پھریں؟ اگر وہ خدا اتنا ہی صاحبِ اقتدار ہے تو کیا وہ صرف خیر سے بھری دنیا کو تشکیل نہیں دے سکتا تھا؟ کیا یہ کام کرنا اس کے لیٔ مشکل تھا؟ اگر یہ جنگ ہے خدا اور شیطان کی تو کیا خدا، شیطان کو ڈھیر نہیں کرسکتا ؟اور اگر یہ شر اور خیر کی آپس میں جنگ ہے تو کیا خدا س جنگ کو ختم نہیں کرسکتا ؟ کیا وہ اس دنیا سے شر کا خاتمہ نہیں کرسکتا؟ اگر نہیں! تو پھر خدا صاحبِ قدرت کیسے ہوا؟آخر کار خدا نے انسان کو بنایا ہی کیوں؟
اگر غور کیا جائے تو یہ بحث خاصی حد تک معقول ہے اور کوئی بھی ایسا انسان جسے خدا کی معرفت کا سہی سے علم نہ ہو، اس کا ایمان ڈگمگا سکتا ہے۔ یہی وہ منطقی دلائل ہیں جن کے تحت انسان خدا کے وجود سے منکر ہوجاتا ہے لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جس خدا نے یہ دنیا بنائی، وہ جو چاہے کرسکتا ہے؟ کیا یہ اس کی طاقتوں کا حق نہیں کہ وہ جیسے چاہے ان کا استعمال کرے؟ اگر آپ کے پاس کوئی ہنر ہو تو کیا آپ کی خواہش نہیں ہوگی کہ اپنے اس ہنر کو استعمال کرکے جیسے مرضی چاہیں فائدہ اٹھائیں؟ ہم تو پھر انسان ہیں، لیکن خدا کے پاس لامتنائی اورلازوال طاقتیں ہیں۔ اس کی قدرتیں ہماری عقل سے بالاتر ہیں۔ ہم خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں اور مخلوق کبھی بھی خالق کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ لاکھ کوششیں کیوں نہ کرلے، جتنا مرضی چاہے ہاتھ پیر ہلالے لیکن وہ اپنے خالق کی سوچ تک پہنچ ہی نہیں سکتی، اس کی قدرتوں کو جان ہی نہیں سکتی۔ ہم انسان سمجھتے ہیں کہ ہم عقل کل ہیں، پس اسی خوش فہمی کا شکار ہوکر ہم اپنے اندر اٹھنے والے سوالوں کا جواب بھی خود ہی تلاشتے ہیں، اور جب جواب نہیں ملتا تو اپنے محدود دماغ کی قائم کردہ منطقوں کی بدولت نتیجے پر پہنچ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم انسان یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خالق کے برابر نہیں۔ ہمارا دماغ محدود ہے، تو وہ کیسے ایک لامحدود طاقت کو مکمل طور پر جان سکتا ہے۔ یا اس کی پیچیدگیوں کو سمجھ سکتا ہے۔ یقیناً آپ کہیں گے کہ اللہ چاہتا تو انسان کا دماغ لا محدود بنا سکتا تھا! اب یہ تو اس کی مرضی پر منحصر ہوا کہ وہ انسان کا دماغ محدود بنانا چاہ رہا تھا یا لا محدود۔ قادر المطلق تو ہوگا ہی وہی جو کچھ بھی کردے، برائی کو تشکیل دے دے یا اچھای ٔ کو۔ کیا صرف اچھایٔ کو پیدا کرنا ہی قادر المطلق ہونے کی دلیل ہے؟ کیا قدرتیں رکھنے والا، برائی پیدا نہیں کرسکتا؟ کیا وہ قوتِ ارادی ،ایسی قوت نہیں بنا سکتا جو دنیا میں دنگا فساد پھیلنے کی بنیادی وجہ ہو؟
اصل میں انسان کے معدے میں برائی و اچھائی دونوں کی فطرت پوشیدہ ہے۔ اس کی جو سب سے اہم وجہ ہے ، وہ یہ کہ اللہ نے انسان کو اختیار دے کر پیدا کیا ہے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے جس کے بنا پر انسان سہی اور غلط کا فرق پہچان سکے۔ وہ جو بھی راہ چاہے، اختیار کرسکتا ہے۔ اللہ نے انسان کو شعور دے کر پیدا کیا اور ساتھ ہی سہی اور غلط کا فرق بھی واضح کردیا تاکہ انسان یہ نہ کہ سکے کے اسے تو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ جتنی بھی برائیاں اس دنیا میں پھل پھول رہی ہیں، اور جتنی بھی اچھائیاں پنپ رہی ہیں، اللہ نے ہر ایک کاذکر اپنے کلام میں کیا ہے اور نبیوں کے ذریعے سے پیغامات اپنے بندوں تک پہنچاے ٔ۔ چنانچہ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کرتا ہے۔ البتہ قانون کے مطابق اگر انسان برایٔ کے راستے پر چلے گا تو اللہ آخرت میں اسے، اس کے برے اعمال کی سزا دے گا۔ اور اگر انسان اچھے کام کرے گا، تو اسے اس کا بے بہا اجر بھی ملے گا۔ یہ جزا و سزا کا فیصلہ در حقیقت جنت و جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے جب اللہ نے انسان کو جنت اور جہنم میں بھیجنا ہے تو اتنے جھنبیلے کس لیے؟ آخر اللہ نے انسان میں صرف اچھائی کیوں نہیں رکھی؟ اگر اللہ ایسا کردیتا توانسان کو پیدا کرنے کا مقصد فوت ہوجاتا۔ اس کی بے شمار مخلوقات ہیں جو ہر لمحہ اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ فرشتے، چرند پرند، سورج، چاند تارے، کہکشائیں، کائنات، آسمان و زمین، سیارے اور نا جانے کیا کیا۔ یہ تمام مخلوقات کبھی بھی اللہ سے بغاوت
نہیں کرسکتیں، کیوں کہ اللہ نے ان کے اندر صرف اچھایٔ کا بیج بویا ہے ، وہ کبھی بھی کویٔ گناہ نہیں کرسکتیں۔اگر اللہ انسان کو بھی ایسا ہی بنا دیتا تو انسان اور فرشتے میں کیا فرق رہ جاتا؟ دوسرا یہ کہ اللہ اپنی طاقتوں کا زور و شور سے استعمال چاہتا ہے، وہ ایسی مخلوق بنانا چاہتا تھا جو اسے اس لیے نہ مانیں کیوں کہ وہ اس کا خالق ہے بلکہ وہ اپنے خالق کو پورے ہوش و حواس ، عقل و شعور اور دل سے تسلیم کرکے اپنا سر اس کے حضور میں خم کردے۔
اسی وجہ سے اللہ نے یہ دنیا بنائی اور اس دنیا کو ایسے قوانین کا پابند کیا کہ یہاں انسان کے لیے مسائل بھی موجود ہیں اور پل دو پل کی خوشیاں بھی۔ کبھی خوشی ہے تو کبھی غم، کبھی رنج و الم ہے تو کبھی سکھ و پرور۔ یہاں سب کچھ دھوکا ہے ،کچھ بھی باقی رہنے والا نہیں۔ اس دنیا میں انسان ہر پل دھوکے میں مبتلا ہے۔ وہ سوچتا کچھ ہے، اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔ وہ چاہتا کچھ ہے تو اسے مل کچھ اور جاتا ہے۔ وہ جس پر اندھا اعتماد کرتا ہے، وہی اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر چلا جاتا ہے۔ غرض کے شر سے خیر، اور خیر سے شر پل رہا ہے۔ لیکن کچھ بھی مکمل نہیں۔ نہ اچھایٔ، نہ برایٔ،اس دنیا میں کچھ مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ یہ دنیا فانی ہے۔ اصل زندگی ہے آخرت اِس دنیا میں سچ اور جھوٹ کی جنگ چلے جارہی ہے لیکن وہاں، اُس دنیا میں سچ، جھوٹ سے علیحدہ ہوجاے ٔ گا۔ وہاں شر خیر سے جدا ہوجاے ٔ گا۔ وہاں جنت میں کویٔ شر نہیں ہوگا اور جہنم میں کوئی خیر نہیں، حقیقت وہی ہوگی۔ اس فانی دنیا کو ابدی سمجھ کرجس جس نے ظلم کیا ، فساد برپا کیا، اسے وہاں نہ ختم ہونے والی سزا ملے گی، کیوں کہ وہ ظالم انسان ، ختم ہونے والی کو اخروی سمجھ رہا تھا۔ اسے پتا چل جاے ٔ گا کہ زندگی تو اب شروع ہویٔ ہے۔ اور جس جس نے بھی اس دنیا میں ظلم سہے مگر حق کا ساتھ نہ چھوڑا، اسے جنت کی صورت میں انعام ملے گا۔ نہ ختم ہونے والا انعام۔
اسٹیون نے اپنی کتاب، خدا مذہب اور منطق، میں یہ سوال بھی اٹھاے ٔ کہ بھلا جنت کی زندگی کیسی ہوگی؟ کیا وہاں پر وہ مزہ مل پائے گا جو ہمیں اس دنیا میں کی رنگینیوں میں نصیب ہوتا ہے؟ اگر لوگ اپنی پسندیدہ کھلاڑی یا اداکار کو دیکھ کر جھوم اٹھتے ہیں تو کیا جنت ہمیں ایسا مزا دے سکے گی؟ عجیب بات ہے کہ سٹیون نے جنت کے بارے میں تو پوچھ لیا، لیکن جہنم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ جہنم میں دہکتی آگ ہوگی۔ لیکن کیا آپ کو اندازہ بھی ہے کہ آگ کس نوعیت کی ہوگی؟ ہم پر چا ئے ٔ کا ہلکا گرم پیالا بھی گر جائے تو ہماری چیخیں نکل پڑتی ہیں۔ تو کیا اس گرم پیالے کاجہنم سے کویٔ موازنہ ہوسکتا ہے؟ اللہ کہتا ہے جہنم کی آگ کی ستر لگامیں ہوں گی اور ایک لگام کو ستر ہزار فرشتے تھامے ہوں گے۔ کیا آپ کی سوچ وہاں تک پہنچ سکتی ہے؟ اور وہ کہتا ہے کہ جنت میں دودھ کی نہریں بہرہی ہوں گی، وہاں اہلِ ایمان کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپیاں ہوں گی، محلات ہوں گے، سیر گاہیں ہوں گی، اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن کیا آپ کی سوچ تصور کرسکتی ہے؟ اللہ نے یہ جو تھوڑا بہت ہمیں جنت و جہنم کا نقشہ کھینچ کر بتایا ہے ، در حقیقت اس نے ہمارے ذہن کے مطابق بتایا ہے۔ کیوں کہ انسانی دماغ لامحدود نہیں۔ اس کا دماغ صرف اسی دنیا تک محدود ہے۔ وہ اس دنیا سے باہر کا کچھ نہ سوچ سکتا، نہ تصور کرسکتا ہے۔ کیا یہ غور کرنے لائق بات نہیں، کہ اگر یہ جھوٹی دنیا ہمیں بے شمار پریشانیوں کے باوجود بھی بھاتی ہے، اور ہم موت سے ڈرتے ہیں، تو اس سچی دنیا کا مزا ہی کچھ اور ہوگا؟ جب اس فانی دنیا میں ہمارے لیے اتنی مصروفیات ہیں تو کیا جنت میں نہیں ہوں گی؟ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے نہ کہ اس نے ہمارے لیے کیا کچھ بنا رکھا ہے، سوچ رکھا ہے۔ اللہ نے قرآن میں بتادیا ہے، کہ آخرت کی باقاعدہ زندگی ہوگی، وہاں بھی نسلیں پروان چڑھیں گی، اور انسان کے لیٔ بہت کچھ ہوگا اور سب حقیقت ہوگا۔ وہ الگ بات ہے کہ ہمارا دماغ یہ سب سوچنے سمجھنے کے ابھی قابل نہیں ۔ جس طرح ظالموں کے لیٔ یہ دنیا حسین ہے، جہنم اتنی ہی بدتر ہوگی۔ کیا یہی انصاف نہیں؟ کیا آپ نہیں چاہتے کہ اِس دنیا میں جتنے ظلم اور زیادتیاں ہورہی ہیں، اِس کا حساب لیا جائے؟ یقیناً سب یہی چاہیں گے۔ بس وہاں مکمل انصاف ہوگا، ایسا انصاف جو اس کھوٹ سے بھری دنیا میں کسی صورت نہیں ہوسکتا۔