ہم نے ہمیشہ غیروں کے چراغ جلائے ہیں،دوسروں کی ڈگڈگی پر ناچتے آئے ہیں،ہم نے اپنی زبان سے ان کی وفاداری میں ہر سیاہ کو سفید کہا اور غلط کو صحیح کہا یہی وجہ ہے کہ ہم وہ کہنہ مشق بھکاری بن کر سامنے آئے کہ جن کی بھیک مانگنے کی عادت چھوٹتی دکھائ نہیں دیتی۔
ہم تو ان کی آفات کو رحمت سمجھتے ہیں،ان کے دیے ہوئے دھوکے ہمارے لیے تبرک ہیں،ان کے لگائے ہوئے زخم ہمارے لیے ہمارے لیے مرہم ہیں اور آندھیاں شبنمی فضا کے جھونکے ہیں۔
اس لیے انھوں نے سوچ لیا ہے کہ بھئ یہ ٹھہرے بے وقوف،نا اہل،بے بصیرت آنکھیں بند کرکے ہر سیاہ سفید پر ایمان لانے والے سو جیسا چاہیں بلنڈر کردیں ہمیں کوئ کہنے سننے والا نہیں ہے۔کون پوچھے گا ہمیں؟
آئیے دیکھیے کہ کیا ہوا؟شہر کراچی کی ایک یتیم اور مظلوم طالبہ جو کب سے اپنے جائز حق کے لیے جدوجہد کررہی ہے،مگر اس ملک کے آمریت کے مارے اداروں کے جبر نے اسے اس کے حق سے محروم رکھا ہوا ہے۔
وہ بچی جو ہے تو بہت ذہین اور پڑھنے کا شوق بھی رکھتی ہے مگر ایک ب فارم جاری نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کا امتحان نہیں دے سکے گی۔
وہ بچی جو تین ماہ خالا کے گھر رہتی ہے،تین ماہ ماموں کے گھر رہتی ہے کہ خود اس کے کفیل بھی خوشحال نہیں ہیں اور یوں مل بانٹ کر اس کی کفالت کر رہے ہیں۔جو اس کے شوق کے پیش نظر اس کے کچھ بن کر اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے،وہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتی اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر طرح کے حالات میں اس کے ساتھ کھڑے رہے،وہ بچی جو اپنے حالات کی پیچیدگیوں کے سبب ذہین ہونے کے باجود بہت جھجھک کر بات کرتی ہے،کیا ایسے حالات اس کی خود اعتمادی کو قتل نہیں کردیں گے؟سوال یہ ہے کہ یہ قتل کس کے سر پر جائے گا۔
جس بچی نے اتنے بدترین حالات میں ایڈوکیٹ عثمان فاروق صاحب کی سرکردگی میں اور مکمل تعاون سے اس مقدمے کو سندھ ہائ کورٹ میں جیتا تھا۔
لیکن نادرا نے توہین عدالت کا ارتکاب کرتے ہوئے ب فارم جاری نہیں کیا اور یہ ثابت کیا کہ قانون کو اندھا کہنے والے اس کی آنکھوں میں خود دھول جھونکتے ہیں،قانون کو بہرہ کہنے والے خود اس کی سماعت کو پگھلا ہوا سیسہ انڈیل کر ضائع کرتے ہیں،قانون کو دراصل ہمیشہ ان ہی لوگوں نے بے اختیار کیا جنھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔نادرا کے خلاف تو توہین عدالت کا مقدمہ کردیا گیا ہے مگر نادرا نے جو کیا اس پر ہی بس نہیں ہوا ،وہ جن کی ہم مالا جپتے ہیں،جن کی تال پر رقص کرتے ہیں،جن کے حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہیں،جن کے مطلب کی کہتے ہیں،جن کے مطلب کی سنتے ہیں وہ کتنے ہوشیار اورباخبرہیں آئیے ذرا دیکھیے” بی بی سی اردو ڈاٹ کام” کی رپورٹنگ دیکھیے کہ ابھی جب یہ مقدمہ زیر التوا ہے، حتمی فیصلہ ابھی نہیں آیا ہے اور عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر اکیس جنوری کیلئے نوٹس جاری کیا ہے اور نادرا حکام سے جواب بھی طلب کیا ہے۔ مگر ذرا اس بین الاقوامی میڈیا کا دنیا کی آنکھوں کے سامنے دھول جھونک کر معتبر بننے کا ڈھونگ رچانے والوں کا اصلی چہرہ دیکھیے کہ!
نادرا کے وکیل کی وضاحت پیش کرنے کے ساتھ آگے لکھا ہے کہ!
” اس توہین عدالت کے مقدمے کو نمٹاتے ہوئے عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ سرپرست کا سرٹیکفیکٹ حاصل کرنے کے لیے ماتحت عدالت سے رجوع کریں”
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
14 جنوری 2021″
گویا کہ مقدمہ نمٹائے بغیر نمٹا دیا گیا ہے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ یہ ایک غلطی پکڑی گئ ہے نہ جانے ایسی غلط رپورٹنگ کتنی بار ہوتی ہوگی؟کتنی ایسی خبریں لگتی ہوں گی؟یہ جو دوسروں کی ٹانگیں کھینچتے ہیں ان کی رسی کون کھینچے گا؟
آپ ہی بتائیے!
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟؟؟؟؟؟