یہی کوئی دو تین دہائیاں پہلے تک دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ مل جل کر موسموں سے لطف اندوز ہوتے اور کام بھی زیادہ نمٹا لیتے۔
خاص کر سردیوں کے موسم میں۔
صبح صبح گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر خواتین گھنٹوں دھوپ سینکتیں، آپس میں گپ شپ کرتیں اور اپنے کام بھی سنوارتیں۔
اب تو یہ موا موبائل ایسی بلا آ گیا ہے جو رات کو دیر تک جگاتا ہے اور پھر نیند پوری کرنے کے لئے لوگ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں اور ویسے بھی اب وہ مل بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے لیے بڑے صحن کہاں رہے ہیں۔
شہر کے لوگوں نے جگہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ کوٹھی سٹائل کے شوق میں صحن بنانا چھوڑ دیے اور دیہاتی لوگوں نے,ہم کسی سے کم نہیں ، کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بند گھروں کے شوق میں آگئے۔
رابعہ تیز رفتاری سے سرسوں کا ساگ کاٹتے ہوئے بہو رانی کے ساتھ دل کے پھپھولے بھی پھوڑ رہی تھی جو پاس بیٹھے بتھوا کے پتے ٹہنیوں سے الگ کر رہی تھی۔ پالک وہ پہلے ہی صاف کر کے رابعہ کے پاس رکھ چکی تھی۔ساگ کے لیے پانی ڈال کر چولہے پر رکھے دیگچے سے، ابلتے ہوئے پانی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ رابعہ نے کٹا ہوا ساگ بڑی ٹوکری میں ڈال کر صدف کی طرف بڑھایا۔
یہ لے صدف پتر۔۔۔۔۔ آپ یہ ساگ دھو کر دیگچے میں ڈال دیں۔ میں اتنی دیر میں پالک کاٹ لیتی ہوں۔
ساگ کی ٹوکری پکڑاتے ہوئے، اچانک رابعہ کی نظر صدف کے چہرے پر پڑی ۔ وہاں تو آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے بھرے پڑے تھے اور چھلکنے کو بے تاب۔۔۔۔
وہ تو اپنے خیال میں بہو کو اپنی باتوں سے محظوظ کر رہی تھی۔لیکن کیا معلوم؟ ۔ ۔۔۔ کہ وہ ساس کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اپنے دل کے ویرانوں سے اٹھنے والے جل تھل سے گھتم گھتا تھی۔ رابعہ نے صدف کی کلائی سے پکڑ کر اسے پاس بٹھا لیا۔
کیا بات ہے بیٹی ؟ عدنان نے کوئی ناگزیر بات کر دی؟ امی کے گھر میں تو ساری خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔ میں صبح سے دیکھ رہی ہوں کہ تم چپ چپ سی ہو۔
صدف کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر گالوں پر پھسلنے لگے۔
یہ ساس بہو ،ماں بیٹی کم اور سہیلیاں زیادہ تھیں۔ رابعہ کی اپنی بھی تین بیٹیاں تھیں اور تینوں ہی شادی شدہ تھیں۔
ان کا ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی ماں کے گھر میں چکر لگتا۔ اگر شومئی قسمت ایک دو رات رہتیں بھی تو ادھر بھی زیادہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی مگن رہتیں۔ نہ بچوں کے شور اور کام ختم ہوتے نہ ماں کے پاس بیٹھ کر سکون سے تسلی بخش باتیں ہوتیں۔ دکھ سکھ سننے سنانے کا نہ وقت ملتا نہ نوبت آتی۔ لیکن صد شکر۔۔۔۔ اللّہ تعالیٰ نے رابعہ کو بہو بیٹیوں سے بڑھ کر دی
جو دکھ سکھ اور رابعہ کی خدمت۔۔۔۔۔۔ دونوں لحاظ سے کوئی کمی محسوس نہ ہونے دیتی ۔ ساس کی رازداری کی حفاظت میں صدف کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کی کہی ہوئی کوئی بھی بات کبھی میاں کے سامنے بیان نہ کی۔ صدف کی وجہ سے نندیں بھی میکے آنے کے لیے بے تاب ہوتیں۔ کیونکہ میکہ گھر میں ماں کے ساتھ ساتھ ایک عدد بہن بھی چاہت کے ساتھ نہ صرف ان کی آمد کی منتظر ہوتی بلکہ جلدی نہ آنے کی صورت میں آنے کے لئے یاد دہانی بھی کروائی جاتی۔ آنے پر ان کی پسند کا کھانا بناتی۔
صدف کے اس محبت بھرے رویے نے رابعہ کو بیٹیوں کی مہمان نوازی سے بھی بے فکر کر دیا تھا۔ نندیں ، بھابھی سے خوب خوش ہو کر واپس سسرال کی راہ لیتں۔ بچے کئی دن ممانی جان کے دیے گئے چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے کھیلتے اور پھر ماؤں سے پوچھتے کہ اب ممانی گھر کب جانا ہے؟
یہاں تو نہ نانی کا گھر اور نہ ہی ماموں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چار سو ممانی کی محبتیں ہی راج کر رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کو خوش رکھنے والی صدف کی آنکھوں سے آنسو چھم چھم برس رہے تھے۔ ہائے میں صدقے۔۔کیا ہو گیا ہے میری لاڈو کو۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر رابعہ نے صدف کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ غم میں ڈوبی ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔ رابعہ اسے اپنے سینے سے لگائے کندھے پر تھپکیاں دے رہی تھی اور آنسوؤں کے ساون بھادوں کے ختم ہونے کے انتظار میں تھی۔ جب ہچکیاں رک گئیں اور اندر کا لاوا بہہ گیا۔ آنسو تھم گئے تو رابعہ نے اسے اپنے سینے سے الگ کرتے ہوئے بڑی محبت سے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے لگی۔
کس غم نے اتنا رلا دیا ہے میری لاڈو رانی کو؟۔۔۔۔۔۔
اب تک صدف بھی سنمبھل چکی تھی ۔ اپنے ہاتھوں کی پشت سے آنکھیں رگڑ کر صاف کرتے ہوئے کہنے لگی۔
امی جی۔۔۔ میں اپنی والدہ کے بارے میں پریشان ہوں۔ میں محسوس کر رہی ہوں کہ انہیں میری خدمت کی سخت ضرورت ہے۔ آپ تو جانتیں ہیں کہ ایک بھائی فیملی سمیت کینیڈا ہے اور دوسرا جاب دور ہونے کی وجہ سے ہفتہ میں صرف دو دن گھر آتا ہے۔ امی اکثر اوقات بخار میں مبتلا رہتیں ہیں۔ بازو کے مسلز کے کھچاؤ کی وجہ سے اپنی کنگھی تک نہیں کر سکتیں،جس کی وجہ سے الجھے بالوں میں جوئیں بھی خوب پڑ گئیں۔ ان کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا جاتا نہ وہ کچن میں جا کر خود پکا سکتیں ہیں۔ بھابھی بچوں کو دادی کے پاس نہیں جانے دیتی کہ کہیں انہیں بھی جوئیں نہ پڑ جائیں۔ بلکہ اس بار بھابھی نے مجھے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ
میں اپنا گھر بار، بچے سمبھالوں یا انہیں۔۔۔۔ان کی خدمت میری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ان کی اولاد کی ذمّہ داری ہے۔
امی۔۔۔ میں کیا کروں ؟
میں بے بس ہوں۔ میں کیسے اپنے گھر سے غیر حاضر رہ کر اور وہاں جا کر ان کی خدمت کروں؟ ان کی حالت تو ایسی ہے کہ انہیں ہر پل ایک خدمت گار کی ضرورت ہے۔
صدف کی آنکھوں کی ندیاں دوبارہ بہنے لگیں۔
صدف یہ سب کچھ سن کر تو مجھے تجھ پر افسوس ہوا ہے۔ کل گئی ہو اور ماں کی ایسی بری حالت دیکھ کر بھی ماں کو وہیں چھوڑ آئی ہو تاکہ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہیں مر جائے۔
کیا تیرے گھر میں تیری ماں کے لئے کوئی جگہ نہ تھی ؟کیا تم اس عورت کی خدمت سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی جس کی دن رات کی محنت ومشقت سے تم اتنی بڑی ہوئی ہو۔
یاد رکھو صدف ۔۔۔۔۔ ہم اپنی معزز ماؤں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود انہیں ارزاں کر دیتے ہیں۔
مجھے جلدی سے فون پر عدنان کا نمبر ملا کر دو۔
صدف اب پریشانی کے ساتھ ندامت میں بھی تھی۔ موبائل پکڑ کر عدنان کا نمبر ملانے لگی۔
رابعہ نے عدنان کو آفس سے فوراً گھر آنے کا کہا خود اس کے آنے سے پہلے ہی تیار ہو گئی۔ عدنان کے گھر آتے ہی اسے ساتھ لے کر صدف کی والدہ ذکیہ خاتون کو لینے چلی گئی اور صدف کو چولھے پر رکھے ساگ کو آنے سے پہلے تک تیار کرنے کا حکم دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ذکیہ بھی ساگ کھانے کی شوقین ہے۔
ان کے جاتے ہی صدف دوگنی قوت کے ساتھ کام میں جت گئی۔ آنسو تو اس کی آنکھوں سے اب بھی جاری تھے لیکن غم کے نہیں ساس اور شوہر کے لئے تشکّر کے۔۔۔۔۔۔
اس گھر کی محبتوں اور بہترین توجہ نے ذکیہ خاتون کو چند دنوں میں ہی تندرست کر دیا۔ ان کی صورت میں رابعہ کو ایک اور سہیلی مل گئی۔ صدف اور عدنان دونوں ماؤں کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے لگے۔ دونوں بڑی بی خواتین نے اپنا کمرہ مشترکہ رکھا۔ بچے والدین کو بھول کر نانی دادی کے ہی ہو کر رہ گئے۔ ان کے کمرے میں ہی سوتے، ان سے کہانیاں سنتے، دعائیں یاد کرتے، ادب وآداب سیکھتےاور انہیں دباتے بھی۔۔۔۔ خوشی خوشی نانی دادی کے چھوٹے چھوٹے کام بھی کرتے۔
اس طرح صدف بچوں کی تربیت کے حوالے سے بے فکر ہی تھی اور بچے تو نانی دادی کی آنکھوں کے تارے تھے۔
دونوں بزرگ سہیلیاں اپنی باتوں کے ساتھ ساتھ صدف کے بھی کئی کام نمٹا دیتیں۔
اس پر سکون اور خوبصورت گھر کو ایک نہیں دو دو ماؤں کی دعائیں اور برکتیں مل گئیں۔