دنیا کے اکثر خطوں میں کووڈ۔19ویکسی نیشن کے باوجود عالمی سطح پر وبائی صورتحال تشویشناک ہے۔دنیا کو درپیش اس بڑی آزمائش سے نمٹنے کے لیے اگرچہ تمام ممالک کی جانب سےحکومتی سطح پر اقدامات جاری ہیں لیکن عوامی سطح پر احتیاطی تدابیر اپنانےکا بدستور فقدان ہے۔ویکسی نیشن سے یہ امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ معمولات زندگی شائد اب جلد بحال ہو سکیں مگر کووڈ۔19کے باعث سامنے آنے والےمتعدد چیلنجز سے نمٹنا کسی ایک ملک کی بس کی بات نہیں ہے ،یہاں اجتماعی رویوں سے ہی حتمی فتح ممکن ہے۔
تمام ممالک اور تنظیموں کی جانب سے کووڈ۔19کی نئی لہروں اور وائرس کی نئی اقسام سے نمٹنے کے لیے بہتر تیاری ، وبائی صورتحال سے شدید متاثرہ عالمی معیشت کی بحالیاور تنازعات سے دوچار خطوں میں امن و استحکام کا قیام پوسٹ کووڈ۔19دورکے اہم چیلنج ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے توسال 2021 میں کووڈ۔19کی نئی لہریں اب بھی بڑے پیمانے پر دنیا کو درپیش ایک خطرناک چیلنج ہیں۔امریکہ ،برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جو جدید ترین میڈیکل ٹیکنالوجی کے حامل ہیں ، وہاں بھی صحت کے شعبے پر بدستور دباو بڑھ رہا ہےاور ماہرین نےمزید سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے ، یہ صورتحال یقیناً پریشان کن ہے۔ وبا کے خلاف جنگ میں اس وقت سب سے اہم نکتہ قومی سطح پر متفقہ ردعمل ہے۔چین نے اس حوالے سے دنیا کے سامنے ایک غیرمعمولی مثال قائم کی ہے جو یقیناً قابل تقلید ہے۔
انسداد وبا کے حوالے سے مزید بات کی جائے تو دنیا کے تمام ممالک تک ویکسین کی منصفانہ اور شفاف تقسیم بھی کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا اب بھی اصرار ہے کہ محفوظ اور موثرکووڈ۔19ویکسین کی تیاری کے بعد دنیا بھر میں اس کی مساوی تقسیم 2021 میں ایک فوری نوعیت کا کام ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اس وقت اگر دنیا کے کئی ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب مزید نئی ویکسینز کی تیاری کے لیےبھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
وبائی صورتحال سے جڑا ایک اور بڑا چیلنج اقتصادی بحالی ہے۔دنیا کے اکثر ممالک میں کووڈ۔19کی نئی لہروں نےعالمی معاشی بحالی میں غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے۔عالمی سطح پر غربت ، بے روزگاری اور عدم سماجی تحفظ سمیت کاروباری اداروں کو قرضوں اور دیوالیہ پن کا سامنا ہے۔دنیا کی کئی معیشتیں تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہیں۔وبا کے باعث معاشی اور معاشرتی شعبے پر شدید ترین منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اس طرح کی تاریک صورتحال کا تقاضہ تو یہی ہے کہ معاشی بدحالی کے خاتمے کے لئے عالمگیر کوآپریٹو کوششوں کو زیادہ اہمیت دی جائے۔
چینی معیشت کی بات کی جائے تو اس وقت عالمی سطح پر چین مثبت شرح نمو کا حامل واحد بڑا ملک ہے ، یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصے میں چین نے اقتصادی بحالی کے عمل میں تیزی لانے کے لیے متعدد اقدامات اپنائے ہیں۔اس حوالے سے سب سے اہم پیش پیش رفت علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری معاہدہ اور چین-یورپی یونین سرمایہ کاری معاہدے سے متعلق مذاکرات کی تکمیل ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ انسداد وبا اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں کو ہم آہنگ طور پر آگے بڑھاتے ہوئے عالمی معاشی بحالی کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا جائے۔عالمی سطح پر تجارتی روابط کے فروغ کی بات کی جائے تو دو ہزار بیس میں چین کی بیرونی تجارت کی برآمدات و درآمدات کل مالیت 32.16 ٹریلین یوان رہی ، جو 2019 کے مقابلے میں ایک اعشاریہ نو فیصد زائد ہے ۔ دنیا میں کووڈ -19کیبدترین صورتحال اور عالمی معاشی کساد بازاری کے پس منظر میں چین نے تجارتی ماحول کی بہتری ، صنعتی و کاروباری اداروں میں تخلیق کے فروغ اور منڈی کی وسعت کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جس کے نتیجے میں دو ہزار بیس میں چین کی بیرونی تجارت توقع سے زیادہ بہتر رہی نیز درآمدات و برآمدات اور بین الاقوامی منڈی میں حصص کی تعداد ایک نئے ریکارڈ تک پہنچ چکی ہے ۔سازگار پالیسیوں کے ایک سلسلے نے واضح طور پر مارکیٹ اور کاروباری اداروں کے اعتماد کو بڑھایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالے سے اولین ترجیح چین ہے۔
کووڈ۔19کے تناظر میں عالمی سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کی بات کی جائے تو چین نے اس سے قبل بھی ہمیشہوبائی امراض کی نگرانی ، انفارمیشن کمیونیکیشن ، تجربات کے تبادلے ، اور ٹیکنالوجی شیئرنگ کو تقویت دینے پر زور دیا ہے ۔موجودہ وبا کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے متعدد مواقع پر کہا کہ چین ، وبا سے بچاو اور اس پر قابو پانے سے متعلق تجربات ،تشخیص اور علاج کی ٹیکنالوجی کے دیگر ممالک کے ساتھ تبادلے، ضروری طبی سامان کی فراہمی اور عالمی سطح پر چین کی تیار کردہ ویکسین کو عوامی مصنوعات کی فہرست میں شامل کرنے نیز عالمی برادری خصوصاً ترقی پزیر ممالک کو صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں اُن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ چین کے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کے تصور کو عالمی طور پر سراہا گیاہے اور یہ اقوام متحدہ کی اہم دستاویزات میں درج کیا گیا ہے۔یہ اس بات کا مظہر بھی ہے کہ چین ایک بڑے ملک کا کردار بخوبی نبھا رہا ہے جس کا دنیا اعتراف کرتی ہے۔موجودہ بحران کا تقاضہ ہے کہ دیگر بڑے ممالک بھی آپسی تنازعات کو بھلا کر دنیا کے مشترکہ مفاد کے لیےعملی کردار ادا کریں تاکہ انسانیت کا ایک محفوظ اور روشن مستقبل تعمیر کیا جا سکے۔