میرے پیغمبر رسول اللہﷺ ، خاتم النبیین ﷺ، رحمت العالمین ﷺ، دانائے سبل ﷺ، فخر موجودات ﷺ، محسن انسانیت ﷺ، درِّ یتیمﷺ، آمنہ کے لعل ﷺ، نبی مہربان ﷺ ، سردار الانبیاء ﷺ ،ابوالقاسم ﷺ اور اسوۃ حسنہ کے حامل ﷺ کائنات کی عظیم ترین اور سب سے محترم و مقدس ہستی ہیں۔ جن کے دم قدم سے یہ جہاں نور اسلام سے منور ہوا ہے۔
اگر میں بالخصوص بحیثیت صنف نازک ان سے اپنے رشتے اور تعلقات کا جائزہ لوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ
نبی کریم سے میرے تعلق کی سرحدیں لامحدود ہیں۔ وہ میرے لیے میرے جان ومال اور دیگر ہر چیز، ہر تعلق، ہر رشتے سے بڑھ کر معزز و محترم ہیں۔ کیونکہ وہ میرے
رسول اللہﷺ
خاتم النبیین ﷺ
رحمت عالمﷺ
معلم و رہنما،
مربی و تربیت کار،
اور حقوق نسواں کے حقیقی و واقعی اور کامل علمبردار ہیں۔
میں غور وفکر کرتی ہوں کہ اپنے نبی صدق و صفا ﷺ سے اپنے رشتوں اور تعلقات کو صفحہ قرطاس پہ الفاظ کی صورت میں کس طرح بکھیروں کہ وہ ہستی تو رشتوں کا مجموعہ کامل ہے۔ اس لیے میرا قلم رک رک جاتا ہے۔
میں یقین کامل رکھتی ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے تعلق کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے میرے سارے تعلق، سارے رشتے، اور معاملات رسول مہربانﷺ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
میں اپنے قلم کا تسلسل جاری کرکے اپنے احساسات و جذبات اور خیالات و افکار کو قرطاس پر منتقل کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
ع میرے نبی ﷺ سے میرا رشتہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
لب پر نعت نبیﷺ کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔” (سورۃ الاحزاب: 17)
ترجمہ: “تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ (کی ہستی) میں بہترین نمونہ موجود ہے۔”
میرے نبی سے میرا رشتہ اسلام اور ایمان کا ہے۔ وہ میرے رسولﷺ ، خاتم النبیین ﷺ ،اور رحمت عالم ﷺ ہیں۔ میں ان کی ایک ادنیٰ امتی اور پیروکار ہوں۔ ان پر آخری نبی ہونے کی حیثیت سے ایمان کامل رکھتی ہوں۔ میں جہان کے لیے باذن اللہ انکی رحمت عام میں سے حصہ دار ہوں۔ اور خواتین کے لیے ان کی رحمت سے خصوصاً فیض یاب ہوتی ہوں۔
میرا اپنے نبی الصادق الامین ﷺ سے تعلق دنیا کی سرحدوں سے ماوراء عالم برزخ اور پھر عالم آخرت تک وسیع ہے ۔میں قبر میں ان کے رسول ہونے کا اعتراف کروں گی ان شاء اللہ۔ میں روز قیامت ان کی امتی کی حیثیت سے پہچانی جاؤں گی۔ اور ان کے دستِ مبارک سے حوض کوثر پر جام کوثر حاصل کرنے اور پینے کی خواہش مند ہوں گی۔ اور ان کی شفاعت کی امیدوار بھی ہوں گی۔
نبی مکرم ﷺ میرے معلم و رہنما ہیں۔ میں وحی الہٰی کے علم کے حصول کے لیے ان کی کامل محتاج ہوں۔ میں ان کی روحانی شاگرد ہوں اور ہر لحظہ ان کی رہنمائی کی ضرورت مند ہوں۔ وہی قرآن مجید کے اولین حافظ، اولین شارح اور مراد الہٰی کی وضاحت کرنے والے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نبی امی تھے اور دنیا میں آپﷺ نے کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ آپ کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی، جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادہے:
“وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَم۔” (النساء :113)
ترجمہ: اور اس (اللہ) نے آپ کو وہ تعلیم دی جو آپ نہیں جانتے تھے۔”
قرآن مجید میں مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے
“وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم۔” (القلم: 4)
ترجمہ: “اور بلا شبہ آپ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔”
حسن یوسف، دم عیسی، یدبیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
اس لیے نبی مکرم ﷺ اعلیٰ ترین اور کامل معلم تھے۔ میرے لیے فرض ہے کہ میں تحصیل علم کے لیے بھرپور کوشش کروں کہ
بحیثیت ان کی روحانی شاگردہ، میرا علم وعمل خالصتاً لوجہ اللہ اور شعور و آگہی کے حصول کے لیے ہو۔ برائے تعمیر کردار، اور برائے نفع امت ہو۔ نہ کہ میرا علم برائے ڈگری یابرائے کسب معاش ہو، اور نہ فخر و مباہات کے لیے ہو بلکہ میرے اندر عاجزی و انکساری پیدا کردے اور عمل کی ترغیب پیدا کرے۔
میرے جسم و جاں اور دل و دماغ حب رسول ﷺ کی حرارت و جرات سے ایسے معمور ہوں کہ میں اپنی تمام صلاحیتوں (تعلیم و تدریس اور تقریر و تحریر وغیرہ) کے ذریعے کفار اور مخالفین و منافقین کو منہ توڑ جواب دے سکوں۔
میرے نبی صدق و صفاﷺ نے انسانی زندگی میں کریمانہ اخلاق کی اہمیت و فضیلت سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ
“انما بعثت لأتمم مکارم الأخلاق۔” (مسند احمد: 8939)
ترجمہ: “بے شک مجھے عمدہ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔”
آپ ﷺ نے مزید فرمایا:
اکمل المومنین احسنکم اخلاقاً۔
ترجمہ: “تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہوں۔” (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے اخلاق کے بارے میں فرمایا۔
“کان خلقه القرآن۔”
ترجمہ:”آپ ﷺ کا سارا اخلاق قرآن ہی ہے۔”
رسول مہربان ﷺ کی سیرت قرآن مجید کا عملی نمونہ ہے۔ وہ میرے مربی و تربیت کار ہیں۔ قدم قدم پر ان کے فرمان، احادیث اور سنتیں میری رہنمائی کرتی اور کامیاب زندگی کے لیے میری تربیت و اصلاح کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔
نبی مکرم ﷺ امت کے لیے باپ کی طرح شفیق و مہربان ہیں، لہذا انہیں مسلمانوں کی تکلیف حد سے زیادہ گراں گزرتی اور ان کی آسانی و بھلائی ان کے لیے باعث راحت ہوتی تھی۔ بھلا انﷺ جیسی مہربان ہستی بھی کوئی ہوسکتی ہے جو سجدوں اور دعاؤں میں قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے لیے “امتی، امتی” پکار پکار کر ان کے لیے دعائیں کرتی رہے؟ ﷺ
نبی معظم ﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن امت کی روحانی مائیں ہیں۔ اپنی روحانی ماؤں کے ذریعے دین کے بہت سے احکامات عملی طور پر صحابیات اور پھر مجھ تک پہنچے ہیں۔
نبی مہربانﷺ نے امت کی خواتین کے لیے اللہ کے حکم سے بہت ساری آسانیاں بیان فرمائیں۔ اور حقوق نسواں کے علمبردار اور مہربان بن کر مجھے بحیثیت خاتون میرے حقوق و فرائض سے روشناس کروایا ہے۔ زمانہ جاہلیت سے جاری میری تذلیل کی انتہا کا سلسلہ روک کر عزت و فضیلت سے نوازا ہے۔ نیکی اور تقوی کی بنا پر مجھے مردوں کے برابر اجرو ثواب کی حقدار ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔ مجھے مرد کی زندگی میں بہت اہم حیثیت اور کردار کا حامل ٹھہرایا۔ اور میرا مقام و مرتبہ نہایت بلند کر دیا ہے۔
بحیثیت ماں مجھے عظمت کے اوج ثریا تک پہنچا دیا ہے۔ جنت میرے قدموں تلے رکھ دی ہے۔
جنت ہے ماں کے پاؤں تلے ،جانتے ہیں سب
ماں دینِ مصطفٰی میں بہت ذی وقار ہے
بحیثیت ماں مجھے باپ سے تین گنا زیادہ مقام عطا ہوا ہے۔ حمل کے کٹھن مراحل، حیات و ممات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر بچوں کی پیدائش، رضاعت (دودھ پلانا) کے مشکل ومصروف دو برس، حضانت (پرورش) اور اولاد کی تعلیم و تربیت کی فطری اہم ترین ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے میرے ایک ایک لمحے کی سعی و کوشش کی قدر کرتے ہوئے اجر و ثواب کے حصول کی خوش خبری دی گئی ہے۔ سبحان اللہ!
بحیثیت بیٹی مجھے بیٹے کے برابر حقوق دیے، والدین کو بیٹے اور بیٹی کے درمیان فرق کرنے سے منع کر دیا۔ دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے والے باپ، بھائی کو جنت میں اپنی ہمسائیگی کی خوش خبری دی ہے۔ اپنی سگی بیٹیوں سے محبت اور ان کی عزت و تکریم کرکے والدین خصوصاً والد کو مجھ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے اور مجھے رحمت سمجھنے کا عملی درس دیا ہے۔
بحیثیت بیوی مجھے بہترین متاع دنیا، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور قرار دیا ہے۔
شادی کے معاملے میں میری پسند و ناپسند اور مفاہمت کو مکمل اہمیت دی ہے۔
میرے شوہر کے لیے مجھے بحیثیت بیوی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کا ثواب رکھا۔ اس کی کمائی میں میرا حصہ رکھا لیکن اپنی کمائی کی میں خود مالکہ ہوں۔
عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں۔” (سورۃ البقرہ: ) کا فرمان قرآن مجید میں نازل فرمایا اور مجھے اپنے شوہر کا اور شوہر کو میرا لباس بنادیا۔ اور مجھے عزت واکرام کے گویا آسمان پر پہنچا دیا۔
“عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو۔” کا فرمان شوہروں کی رہنمائی کے لیے جاری فرمایا ہے۔
حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر فرمایا کہ
“تم نے انہیں (عورتوں کو) اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ھے اور کلمے کے ذریعے حلال کیا ھے۔” (صحیح مسلم و سنن ابو داؤد)
اگر اسلام نے میرے شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے تو مجھے بھی ازدواجی زندگی کا بوجھ اٹھا نہ پانے کی صورت میں خلع کا حق دیا ہے۔
مجھے بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ میرے ولی کو حکم دیا کہ وہ مجھے شادی کرنے سے نہ روکے بلکہ اس معاملے میں میری مدد کرے۔اور مجھے بھرپور سپورٹ کرے۔
اس کے علاوہ مجھے گواھی دینے کا حق دلوایا۔
مجھے وراثت میں حصہ دلوایا۔
میرے قتل کی صورت میں میری دیت مقرر کی۔
غرض میری صنف کو ان کی تمام حیثیتوں میں بہترین مقام دلایا ہے۔
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الااللہ
قرآن وسنت کے پیغامِ بے مثال کو بحسن و خوبی امت تک پہنچانے والے ایسے عظیم ترین اور مجموعہ صفات پیغمبرﷺ کو آپﷺ سے پہلے کسی نے نہ دیکھا ہے، اور نہ آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کوئی دیکھ سکے گا۔
ع مانا کہ ضرورتیں ضروری ہیں زندگی کے لیے مگر
نبی مہربان ﷺ سے ضروری تو زندگی بھی نہیں۔
بھلا میں ان نعمتوں کی شکر گزاری کیسے کر سکتی ہوں؟؟؟
میرے لیے اس شکرگزاری کا ایک ہی اور اہم ترین ذریعہ ہے کہ میں نبی کریم پر نازل شدہ قرآن وسنت کے احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں، ان پر عمل پیرا ہوں، ان کو حسب توفیق آگے پھیلاؤں، اقامت دین اور شہادت حق کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کروں اور ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے بحیثیت عورت ہرممکن کوشش کروں اور تحفظ ختم نبوت کے جہاد میں اپنا کردار امانت داری سے ادا کروں۔
جس طرح صحابہ کرام، ہمارے اسلاف اور خصوصاً صحابیات حضرت خدیجہ، عائشہ، فاطمہ، ام عمارہ، خنساء و خولہ وغیرہ رضی اللہ عنھن نے دعوت و تبلیغ اور جہاد کے ذریعے خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت اور ناموس کا دفاع کیا ہے۔ اسی طرح مجھے بھی دفاع کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔ تاکہ روز قیامت میں شفیع الامتﷺکی شفاعت باذن اللہ حاصل کرکے کامیابی حاصل کر سکوں۔اور اللہ رب العزت کے حضور سرخرو ہو کر جنت کی حیات جاودانی پا سکوں۔