وائسرائے ہند مولانا ابوالکلام آزاد سے ملنے ان کی رہائش گاہ آیا، وائسرائے کا دونوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اس کی زبان میں بتاتا جارہا تھا۔ اتنے میں جب ترجمان ترجمہ درست نہ کر سکا تو مولانا آزاد نے اس کی غلطی درست کر کے کہا کہ یوں کہو۔ ملاقات کے اختتام پر وائسرائے نے مولانا آزاد سے پوچھا ’’جب آپ کو انگریزی آتی ہے تو ساتھ ترجمان کیوں بٹھایا؟‘‘ مولانا نے جواب دیا، ’’آپ ہزاروں میل چل کر اپنی زبان نہیں چھوڑ سکتے۔ میں گھر بیٹھے ہوئے کیسے اپنی زبان چھوڑ دوں‘‘۔ یہ تو تھا مولانا ابوالکلام آزاد کا سکھایا ہوا سبق۔۔ اب ہم آتے ہیں اپنی زبان اردو کی طرف۔۔۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج ہے۔ اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہندی، ترکی، عربی، فارسی اور سنسکرت زبان کا مرکب ہے۔ اور یہ برصغیر میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کی شق نمبر 251 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی اور اس کو سرکاری زبان 15 سال کے عرصے میں بنا دیا جائے گا۔
لیکن صد افسوس کئی سال گزرنے کے بعد اس شق پر عملدرآمد نہ کروایا جا سکا۔ یوں پاکستان کے ہر ادارے نے شق نمبر 251 کی مجموعی طور پر خلاف ورزی کی۔ پھر 2003ء میں کوکب اقبال ایڈوکیٹ اور محمود اختر نقوی نے اردو زبان کے نفاذ کے لیے درخواست دی۔ ہماری سست رو عدالت میں یہ مقدمہ 12 سال زیر التوا رہا۔
درخواست گزاروں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہماری حکومت جان بوجھ کر شق نمبر 215 پر عملدرآمد کرنے سے گریزاں ہے۔اس سے معاشرتی اور لسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کا سبب بھی ہے۔ آخر کار 12 سال بعد 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دیدیا۔
افسوس! ایک بار پھر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور یہ فیصلہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں فرما دیا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو ہو گی لیکن ہماری حکومت کیا اور ہماری قوم کیا۔۔۔ سبھی نے اردو زبان کے ساتھ سوتیلے پن کا رویہ اختیار کیا۔ انگریزی جو پرائی زبان ہے اسے ذریعہ تعلیم بنایا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کو مہنگے اور فخر کا ذریعہ بنایا۔ اعلی تعلیم اور اعلیٰ عہدوں کے حصول کے ایسا ملکی نظام سیٹ کیا کہ ان تک ایک خاص طبقہ کی ہی پہنچ ہو سکتی ہے۔
اردو میڈیم میں بھی پہلی سے لے کر چودھویں کلاس تک نصاب میں انگریزی مضمون کو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا حالانکہ اردو مضمون صرف بارھویں جماعت تک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل ہے۔ انگلش میڈیم اسکول کے ایک بچے کی جتنی فیس ہوتی ہے تقریباً اتنی ہی ایک غریب آدمی کی تنخواہ ہوتی ہے۔ اب وہ بیچارہ کیا کرے؟ گھر چلائے، بچوں کے پیٹ پالے، یا پھر انہیں پڑھائے۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی اخراجات۔۔۔
ہمارے ملک کی اکثریت یا تو تنخواہ دار ہے یا پھر محنت مزدوری۔۔ اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں بچے داخل کرانا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں اور ملک میں طبقاتی نظام پیدا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک میں اردو میڈیم یکساں نظام تعلیم رائج کر دیا جائے تو اس ذہین ترین قوم میں دن بدن کئی سائنس دان اور ماہرین پیدا ہوں۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں ہمارے لیے قابل فہم نمونہ ہیں۔ انہوں نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا اور خوب ترقی کی جبکہ ہمارے طالب علم بیگانی زبان میں سمجھتے کم اور رٹا زیادہ لگاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں نوے فیصد سے زیادہ لوگ اردو سمجھنے اور بولنے والے ہیں جبکہ انگریزی سمجھنے اور بولنے والوں کا تناسب تو اس کے بہ نسبت بہت ہی کم ہے۔ کء افسر بیچارے بھی انگریزی میں لکھی دستاویزات کو سمجھنے کے لیے اس کا ترجمہ کر وا رہے ہوتے ہیں۔
اردو زبان کی بے توقیری میں ایک وجہ ہماری گھریلو سطح بھی ہے کہ ہم اردو کی نسبت انگریزی بولنے پر بچوں کی زیادہ حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں۔ جو بچہ بول چال میں انگریزی الفاظ زیادہ استعمال کرتا ہے ہم اسے زیادہ لائق تصور کرتے ہیں اور جب ہم خود چھوٹے بچے کو بولنا سکھاتے ہیں تو اردو کے دو الفاظ کے ساتھ تیسرا لفظ انگریزی کا شامل کر لیتے ہیں اور آدھا تیتر آدھا بٹیر والا رنگ پیدا کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود میرے ملک پاکستان میں بہت سے محب قومی زبان و قدر دان بھی موجود ہیں اور وہ اس کے احیا و نفاذ کے لئے سر توڑ کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
جس طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے دو ٹوک الفاظ میں انگریز کو اپنی زبان کی اہمیت جتلائی ہمیں بھی دیدہ دلیری سے اپنی پیاری قومی زبان اردوکا نفاذ کرنا ہو گا اور دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم گونگے نہیں۔ ہمارے پاس بھی ایک بہترین زبان موجود ہے جو اس روئے زمین پر ہم پاکستانیوں کی پہچان ہے جس کے شیریں الفاظ کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ جس کے بارے میں ایک شاعر احمد وصی نے کہا ہے۔
وہ بات کرے تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے