بڑے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے پیروکاروں(عوام) کو نہائت چالاکی،عیاری اور ہوشیاری سے نام نہاد جمہوری راہنمائوں نے ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہے کہ انہیں اچھے اور برے میں تمیز ہی نہیں رہی۔میری سادہ عوام کو لولی لنگڑی جمہوریت کو سرسوتی کی ایسی دیوی بنا کر بے وقوف بنایا گیا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شائد جمہوریت،نعوذ باللہ کوئی افلاک سے اتارا گیا کوئی سماواتی صحیفہ ہے جس کی عزت وتکریم نہ کرنا گناہ کبیرہ میں شامل کر لیا جائے گا۔لیکن صد افسوس تب ہوتا ہے جب پڑھا لکھا طبقہ بھی کسی خاص کے اشارے پر اسی نام نہاد جمہوریت کے راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ موجودہ جمہوریت کی شکل کچھ ایسی بگڑ گئی ہے کہ نہ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک نظام ہے اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی اصول و ضابطہ کی کوئی کتاب ہے۔ایسی صورت حال میں ظاہر ہے کہ اس کے ماننے والوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ خود جمہوری نظام کا ہے۔
اگر میں جمہوریت کے راگ الاپنے والی سادہ عوام کی مثال ابوالہول سے دوں تو بے جا نہ ہوگا۔ابوالہول جو کہ اہرام مصر کے بالکل سامنے بنایا گیا ایسا ایک بت ہے جس کے بارے میں تاریخ کے اوراق ابھی تک خاموش ہیں کہ اس کی وجہ تخلیق کیا تھی۔لیکن ظاہر کی آنکھ سے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ایسا مجسمہ ہے جس کا سر انسانوں جیسا ہے جبکہ اس کے جسم کا بقیہ حصہ جانور،زیادہ تر لوگ شیر سے مشابہت کا لکھتے ہیں،جیسا ہے۔اسے کیوں بنایا گیا،اس کی تخلیق کا مقصد کیا تھا،کیا واقعی اسے قدیم مصری تہذیب کے متحاملین دیوتا خیال کرتے تھے۔اس کے بارے میں آج تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی ،تاہم اس کے بارے میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کام کر رہا ہے۔ایسا ہی حال کچھ ہماری سادہ عوام کا ہے جو سمجھتی ہے کہ جمہوریت واحد سیاسی نظام ہے جو عوامی امنگوں کی ترجمان بن کر عوام کو ان کے مسائل سے نکال سکتا ہے۔لیکن اس نا م نہاد جمہوریت نے پاکستان کی سادہ لوح عوام کے ساتھ جو کیا ہے ،اسے بھی ایک مثال سے ہی اپنے قارئین کو سمجھائوں تو بہتر ہوگا۔کہتے ہیں کہ ایک بیل جو کسی جنگ میں شریک اپنے سامنے دشمنوں کی ایک فوج کے سامنے پوری طاقت سے جما کھڑا تھا کہ دشمن فوج میں سے کسی نے سوال کیا کہ تم میں اتنی طاقت کہاں سے آئی تو بیل نے جواب دیا کہ سانڈھ کا بچہ جو ہوں۔دوسرے ہی لمحے کسی اور نے بھی سوال داغ دیا کہ پھر تم مسلسل تمہارا پیشاب کیوں نکل رہا ہے تو اس پر بیل نے جواب دیا کہ گائے کا بچہ بھی تو ہوں۔
بالکل ایسے ہی ہماری عوام ہے جو کبھی بھی کسی بھی وقت اپنے اپنے راہنمائوں کے پیچھے بلا سوچے سمجھے اپنے لیڈر کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کا محاصرہ کئے ان کی حفاظت میں لگ جاتے ہیں،بھلے معاشی لحاظ سے ان کا مسلسل ’’موتر‘‘نکل رہا ہو۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا قصور وار کون ہے؟حکومت ،سیاست،ریاست،سیاسی تربیت کا فقدان،معاشی زبوں حالی یا پھر ایسی جمہوریت جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہے۔ویسے تو بہت سے وجوہات ہیں لیکن ابھی صرف ایک وجہ کی وضاحت ضروری اس لئے ہے کہ اس ایک کہ اہمیت سب پر بھاری ہے۔اور یہ میری ذاتی رائے ہے جس کے بارے میں کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔لیکن یاد رہے کہ اختلاف برائے اصلاح ہو نا کہ اختلاف برائے اختلاف ہو۔اور وہ وجہ ہے پاکستانی عوام میں سیاسی تربیت کا فقدان۔مزید سوال یہ ہے کہ اس فقدان کی وجہ ،عوامل اور اس کے پیچھے کون سے ایسے ہاتھ ہیں جو ایسا کرنے میں مانع ہیں۔ظاہر بات ہے جب طاقتوں کو عوام کے بھولے پن سے فائدہ ہوگا وہی ایسا کریں گے۔تو وہ طاقتیں ہمارے ایسے نام نہاد لیڈر ہیں جنہیں عوام کی سادہ مزاجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ہر الیکشن سے قبل ان کے جذبات سے کھیل کر ان سے ووٹ لینے ہوتے ہیں۔اور عوام ہر بار ان کے جھانسے میں ایسے آجاتے ہیں جیسے پرندے دانے کی لالچ میں جانتے ہوئے بھی کہ وہاں جال بچھا ہو سکتا ہے،پھر بھی جال میں پھنس جاتے ہیں۔کیونکہ انہیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ ان کا شکار کرنے والے شکاری بڑے شاطر ہیں۔
سب کچھ سہہ کر جینا تھا
دشمن بڑا کمینہ تھا۔
یہی راہنما کمال چالاکی وعیاری سے عوام کی سیاسی تربیت ایسے کرتے ہیں کہ اگر اس سادہ مزاج عوام سے پوچھا جائے کہ لوگوں کی تجارت اور سیاست دانوں کی سیاسی تجارت میں سے کون بہتر ہے تو جواب ملے گا،سیاسی تجارت۔سیاست اور ریاست میں سے کون مقدم ہے تو جواب آئے گا،سیاست۔شخصیت اور نظام میں آپ کا انتخاب کون ہوگا؟تو جواب،میاں نواز شریف،زرداری،مولانا اور عمران خان۔قوم اور ہجوم میں سے آپ کس کا حصہ بننا پسند کریں گے تو جواب دئے بغیر ہی میری سادہ عوام ملک میں ہونے والے دنگا فساد اور منتشر ہجوم میں گھس جائے گی۔افسوس عوام کے منتشر ہجوم میں گھس جانے کا اتنا نہیں ہوتا جتنا اس دلیل سے ہوتا ہے جب یہی عوام اپنے اپنے ہجوم کو ہی قوم ثابت کرنے پر اکڑ جاتی ہے۔ایسے لوگ اپنے خاندان کی اتنی پرواہ نہیں کرتے جتنا کہ سیاسی خاندانوں کی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں ذہنی طور پر ایسا مسمرائز کیاجا چکا ہوتا ہے کہ انہیں ملکی سرحدوں کی اتنی فکر لاحق نہیں ہوتی جتنا کہ اپنے محبوب لیڈر کے محل کی بائونڈری کی حفاظت کی۔
ایسی عقل سے عاری ہجوم کو میں کیا کہوں جو محض ٹین اور چابی کے بندر بن کر ناچنے میں ہی لذت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔یونہی کسی سیاسی راہنما نے ان میں چابی بھر دی بس پھر ان کی پھرتیاں چیک کریں،کہ کس طرح دونوں ہاتھوں اور دونوں پائوں سے محو رقصاں ہوتے ہیں۔اس پتلی ناچ میں تو وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے ناچنے سے لیڈران تو خوش ہو سکتے ہیں لیکن ان کی معاشی حالت نہیں بہتر ہوگی۔انفرادی معاشی حالت میں بہتری تب پیدا ہوگی جب ملکی معاشی صورت حال بہتر اور ترقی کی شاہراہ پر چلے گی۔بس مجھے اس پل کا نتظار ہے کہ جب عوام میں یہ شعور آجائے گا کہ ہم لیڈران کے نہیں بلکہ اس ملک کے غلام ہیں جس کی بقا میں ہی عوامی بقا ہے۔میں ابھی بھی مایوس نہیں ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جس دن میری قوم کو اس بات کا احساس ہوگیا اس دن یہ ٹین اور کاٹھ کے بندر بن کر نہیں بلکہ اللہ کے بندے بن کر انہیں لیڈران کے اشاروں پر محو رقص عوام اپنے ہی ہاتھوں سے ان کے گریبان پکڑیں گے۔بس تھوڑا انتظار کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔