اپنا محاسبہ کیجیے

سال مہینوں کی طرح اور مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا چلاجا رہا ہے۔ موت ایک ناقابل اٹل حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لیے موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے اور موت بلاتفریق سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔

اللہ کے سواکسی بشر کو یہ نہیں معلوم کہ کس جگہ اور کس مقام میں کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہے بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض ارذل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان پلاننگز کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہو چکا ہے۔

گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے۔کرونا کی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا۔آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی اللہ کے پاس حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔ اللہ تعالی نے بار بار قرآن عظیم الشان میں موت کی حقیقت کوبیان فرمایا ہے۔ ”تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ پکڑے گی ، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو“، (سورہ النسائ)اور فرمایا ”کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی ۔۔۔ “ (سورہ جمعہ )

متعدد آیات ہیں جن میں اللہ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے۔کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جلدی سے نیکیاں کرلو، اس سے پہلے کے اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں گے، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہوگا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر بن جائے گا“، (صحیح مسلم)

گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی۔ آج ہم بقید حیات ہیں کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آ جائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہ بچا سکے گی۔ اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی رہنمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے پہلے اچھا کرگزرنے کی ترغیب دی۔ اور فرمایا” پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، امیری کو فقیری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے“، ( سنن نسائی)

زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ موت کےساتھ ہی عمل منقطع ہو جاتے ہیں، اس کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیونکہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے، کاش! نماز پڑھتا یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کر لیتا۔اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں وقت مصروف نہ کر دے۔اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جائے۔ اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہو جاو ¿، جسم بھاری ہو جائے، اعضا جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ”قیامت کے دن انسان کے قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے حتی کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ ان کے جوابات دےدے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائے؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کاعلم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟“ (سنن ترمذی)

اس حدیث مبارکہ میں غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کاوقت ہے۔آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کر رہے ہیں؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگارہے ہیں؟ اللہ کی اطاعت میں زندگی خرچ کر رہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے مال اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اللہ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق پورے کیے؟

ابن عساکر نے حضرت ابوالدرداءسے روایت کی کہ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے قیامت میں سوال ہوگا کہ تم عالم تھے یا نرے جاہل،اگر تم نے کہا کہ میں عالم تھا تو حکم ہوگا کہ اپنے علم پر عمل کیا کیا؟ اور اگر تم نے کہا کہ جاہل تھا تو فرمایا جائے گا کہ تم جاہل کیوں رہے ؟ تمہیں کیا عذر تھا۔یاد رہے یہاں علم سے مراد علم دین ہے۔

 اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامہ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو بروز قیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامہ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو بروز قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنیں گی؟ گزشتہ سال کرونا وائرس کی جو وبا آئے اس سے ہم میں کیا تبدیلی آئے؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا؟ کیا ہم نے رجوع الیٰ اللہ کیا؟ کیا ہم پر اللہ کے، اس کے رسول کے اپنے عزیزو اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال واسباب صرف اور صرف دنیا بنانے میں خر چ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کر لیا؟

لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رجوع الی اللہ کریں۔ سچی توبہ کریں اور بعد میں حسرت اور پشیمانی میں مبتلا ہونے کے بجائے اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے رب کو راضی کرنے کی فکر کریں ۔