گردشِ علی الدوام دائمی و ابدی ہونے کی بنا پر ہمیں سبق فراہم کرتی ہے کہ اگر دنیا میں اپنا کوئی نام و مقام بنانا ہے تو اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو علی التواتر استعمال میں لائیں،کیونکہ چلنے کا نام ہی زندگی ہے ، یاد رکھئے کہ وقت رک جائے تو قیامت برپا ہو جاتی ہے انسان اگر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے تو قوموں کا مستقبل خطرہ میں پڑجاتا ہے۔دنیا میں وہی قومیں پنپتی اوراوجِ ثریا تک پہنچتی ہیں جو وقت کو اپنے ہاتھ میں قید کر لیتی ہیں ایسی قومیں وقت کی نبض پر ایسے ہاتھ رکھتی ہیں کہ وہ جب چاہیں وقت کے پہیے کو گھما دیں جب چاہیں روک لیں۔لیکن وقت کو اپنے ہاتھ میں کرنے کا ایک ہی فارمولا ہے کہ محنت شاقہ سے سرعتِ رفتار وقت کا مقابلہ کیا جائے،وقت کو نہیں بلکہ آپ وقت کو لے کر چلیں۔پھر دیکھئے دنیا کیسے آپ کے ساتھ کے لئے ترستی ہے۔لیکن میرے ملک میں تو وقت کا پہیہ ہی الٹا گھومتا ہے۔جس کو دیکھو دسمبر کی سردی کو ہی کوسے جا رہا ہے کہ دسمبر گزر جائے تو وہ بھی کسی کام پہ جائے جبکہ ترقی یافتہ قومیں دسمبر کے آتے ہی اس بات پہ خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک سال گزر گیا،اب ہمیں نئے سال کی آمداور سالِ گذشتہ کے تجزیہ کا ایک اور موقع مل جائے گا،ہمیں اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھنے کا ایک اور موقع مل جائے گا،ہمیں نئے سال کی پلاننگ گزرے سال کی روشنی میں کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔لیکن ہم ایساسوچتے ہیں؟کہ
حکائت ہے کہ کسی گائوں میں زمیندار سے ایک مزارع نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کچھ رقم مستعار پکڑ کر بڑی شان و شوکت سے اسے رخصت کیا ۔دور و نزدیک تمام گائوں میں مزارع کی بلے بلًے اور واہ واہ اتنی ہوئی کی تمام مزارعین کے سر فخر سے بلند ہو گئے۔چند سال بعد جب بیاہی جانے والی بچی کے اپنے دو تین بچے ہو گئے تو ایک روز زمیندار نے اس مزارع سے دی ہوئی رقم کی واپسی کا تقاضا کیا کہ اوئے نذیر اب تو عرصہ گزر گیا یے تمہیں ادھار لئے ہوئے،اب تو ماشااللہ سے بٹیا کے اپنے بیٹے اور بیٹیاں ہیں ،تو اب تو تم رقم کا بندوبست کرو اور میرے پیسے لوٹائو۔مزارع نے بڑی معصومیت سے زمیندار کو جواب دیا کہ چوہدری جی ،کپاس کی فصل کھیتوں میں تیار ہے یونہی فصل کی چنائی ہوتی ہے تو میں آپ کی پائی پائی واپس کر دونگا۔زمیندار جانتا تھا کہ مزارع نذیر کی تو کوئی زمین ہی نہیں ہے تو پھر یہ فصل اور چنائی سے اس کا کیا لینا دینا۔از راہ تفنن زمیندار نے پوچھا کی نذیر تمھاری تو کوئی زمین نہیں ہے تو تمھارا کیا لینا دینا فصل اور چنائی سے۔مزارع بڑی معصومیت سے چوہدری کو سمجھانے لگا کہ دیکھو چوہدری جی یہ جو میرے گھر بیری کا اتنا بڑا چھتناور درخت دیکھ رہے ہیں نا اس پہ آجکل کانٹوں کی بھر مار ہے اور بیری کی زیادہ تر شاخیں گلی میں اترتی ہیں ،یونہی لوگ ٹرالیوں اور ریڑھیوں سے کپاس لے کر اس بیری کے نیچے سے گزریں گے ،تو کپاس کے بہت سے پھول ان کانٹوں سے الجھ کے رہ جائیں گے بس میں وہ کپاس کانٹوں سے اتار کر منڈی میں لے جا کر فروخت کروں گااور آپ کا قرض اتار دونگا۔اس معصومیت یا بے وقوفی پہ زمیندار نے مسکرانا شروع کر دیا تو مزارع بول پڑا کہ چوہدری جی ’’ہاسے تو نکلنے ہی ہیں رقماں جو مل گئیاں نیں‘‘۔یہی حال میری معصوم و بے وقوف قوم کا بھی ہے کہ منصوبہ بندی ایسے کرتے ہیں جیسے ’’بوہے آئی جنج تے ونہو کڑی دے کن‘‘حالانکہ منصوبہ بندی سے مراد ہی یہی ہے کہ درپیش مشکل حالات کا مقابلہ کس حکمتِ عملی کو اپنا کر کیا جانا چایئے۔ترقی یافتہ ممالک ایسی صورت حال کے لئے پانچ سالہ منصوبے بناتے ہیں ۔اور افراد ہر سال ایسی قراد دادیں بناتے ہیں کہ جس پہ عمل پیرا ہو کر وہ ترقی کی منازل کو چھوتے ہیں۔مگر میرے ملک میں توبس یہ حال ہے کہ۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔۔۔۔۔زندگی یونہی تمام ہوتی ہے
من حیث القوم کبھی ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ہمارا آج گزرے ہوئے کل سے کیوں بہتر نہیں ہے۔گزرے ہوئے ماہ و سال کی نسبت سال ِآئندہ کیسے بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ہم نے تو بس ایک وطیرہ بنا لیا ہوا کہ ایک بھائی اگر بیرونِ ملک بسلسلہ روزگار چلا گیا تو باقی سب جو پاکستان میں رہائش پزیر ہونگے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں کہ بس اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔بھائی باہر کے ملک ہوتا ہے تو ہم کیوں کام کریں۔یقیناً ایسی سوچ کے متحمل افراد کیسے ملکی معاشی و معاشرتی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔لیکن من حیث الافراد سوچ میں مثبت تبدیلی ہی اجتماعی فکر کو جنم دیتی ہے۔۔یہ سب ممکن ہو سکتا ہے اگر ہم ہر نئے سال کی ابتدا ہی سے ایک قرار داد بنا کر اپنی سوچ و فکر کو اس کے تابع کر کے ممکنہ اہداف کے حصول کو ممکن بنا لیں۔مثال کے طور پر سال نو کی آمد آمد ہے تو ہمیں اس سے قبل ہی چند گزارشات ،سوچ،فکر اور اخلاقیات کو ایک قرارداد کی صورت میں ایک ڈائری میں لکھ لینی چاہئے اور پھر سال کے 365 دن عمل پیرائی میں گزارنے کی مکمل سعی کرنی چاہئے ۔جیسے کہ میرے ذہن میں بیدار ہونے والی قرارداد کے چند کلمات جو حدیث شریف کے کلمات ہیں آ رہے ہیں۔جب بھی کسی سے بات کرو تو سچ بولو۔۔۔کسی سے وعدہ کرو تو وعدہ خلافی نہ کرو۔۔۔کوئی امانت رکھوائے تو اس میں خیانت نہ کرو۔۔۔۔اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو۔۔۔۔اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو۔۔۔اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔لہذا اگر ہم بہت زیادہ نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک حدیث پر عمل پیرا ہو کر بھی ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ چند عزائم کو بھی اگر اپنی شخصیت کا خاصہ بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا کی مہذب ،شائستہ اور اخلاق یافتہ قوم نہ بن جائیں۔یعنی اپنے منفی رویوں کو مثبت سوچ و فکر میں تبدیل کر کے،خود احتسابی اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ شائستہ سے،دشمن کی دشمنی کو بھول کر محبت سے پیش آ نے سے،اپنے وقت کو قیمتی بناتے ہوئے انظباطِ وقت پر عمل پیرائی سے،بلا تعصب و نفرت کسی کے کام آ کر،اور سب سے اہم بات کہ ہر کسی سے مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی سے ملنے سے پورے معاشرہ میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کرو خواہ ایک مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو۔تو کیوں نا نئے سال کے طلوع ہونے والے آفتاب کہ پہلی کرنوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی مسکراتے چہروں ،اپنے دکھوں ،پریشانیوں کو بھول کر دوسروں کے دکھوں کا مداوا کریں۔اور ایک مثالی سماج کی خشتِ اول بن کر خوشحال ،پر امن،صحت مند،مثبت اور کامیاب معاشرہ کی بنیاد رکھیں۔اور ہو سکے تو اپنی اپنی قرارداد میں تین باتوں کو ضرور شامل کریں۔۔صبر،شکر اور شکریہ۔اس کی مثال کے لئے مولانا روم کا ایک واقعہ یاد آ رہا کہ ایک بار مولا نا روم نے کسی نیک آدمی سے پوچھا کہ سنائو گزر بسر کیسے ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کہ مل جائے تو شکر کرتے ہیں نہ ملے تو صبر،مولانا روم نے جواب دیا کہ یہ تو بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں۔مولانا روم سے اس بزرگ نے پوچھا تو آپ بتا دیں کہ آپ کی
گزر بسر کیسے ہوتی ہے۔تو مولانا فرماتے ہیں کہ مل جائے تو صدقہ کرتے ہیں نہ ملے تو صبر نہیں شکر کرتے ہیں۔لہذا صبر،شکر اور شکریہ کو نئے سال میں ترجیح اوًل میں رکھ کر ہر اس نعمت کا شکریہ ادا کرنا ہے جو ملی اور ہر اس بات پہ صبر کرنا ہے جو ہماری خواہش کے مطابق نہ ہو سکی اور اللہ اور بندوں کا ہر اس نوازش اور عطا کا شکریہ ادا کرنا ہے جو کسی نہ کسی طور ہماری زیست کے مقدر میں شامل حال رہی اور ہمیں سماج میں معتبر بنایا۔