سنی ہوئی بات انسان کے دماغ پر اتنا اثر نہیں کرتی جتنا دیکھی ہوئی چیز کرتی ہے سنی ہوئی بات کا معاملہ تو ایسا ہے کہ انسان بھول جاتا ہے مگر دیکھی ہوئی چیز کے اثرات کئی عرصے تک اس کے ذہن پر نقش رہتے ہیں۔
کچھ سال پہلے جہاں ایک کامن ٹی وی ہوا کرتا تھا تو جو پروگرامات آتے سب مل بیٹھ کر دیکھتے تھے اور پروگرام بھی صاف ستھرے اور حیا دار ہوتے تھے جو مل بیٹھ کر پوری فیملی دیکھ سکتی تھی پھر جیسے ہی تیزی سے ترقی ہوتی چلی گئی ہر کمرے میں الگ ٹی وی لگنے لگا سب اپنی مرضی کے پروگرام دیکھنے لگے پھر آیا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور اب تو حال یہ ہے کہ موبائل بچے بچے کے ہاتھ میں ہے اور ایک کلک پر سب کچھ کھل جاتا ہے۔
پیمرا کو حکومتی سطح پر یہ ذمہ داری دی گئی کہ چینلز پر آنے والے کونٹینٹ چاہے اشتہارات ہوں یا ڈرامے سب پر نظر رکھی جائے گی اور جہاں کچھ اخلاق و اقدار اور حیا کے منافی ہوا اسے فوری طور پر نشر ہونے سے روکا جائے گا مگر موجودہ دور میں جہاں چینلز کی بھرمار ہے وہیں غیر اخلاقی و حیا سوز اشتہارات اور ڈرامے بھی کھلے عام نشر ہو رہے ہیں ۔پیمرا اپنی ذمہ داری بھول بھال کر سو چکا ہے۔
اشتہارات بنائے جاتے ہیں پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لئے مگر موجودہ دور کے اشتہارات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ پروڈکٹ سے زیادہ عورت کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں ، ان اتحاد بنانے والوں سے کوئی پوچھے کہ بھائی آپ اپنی پروڈکٹ بیچ رہے ہیں یا خداناخواستہ عورت؟ اب بھلا بتائیے چاکلیٹ بسکٹ جو کہ بچوں کے کھانے کی چیزیں اس میں عورت کا کیا کام ہے؟ اور وہ بھی نیم برہنہ عورت اپنا جسم دکھا دکھا کر بسکٹ کی تشہیر کر رہی ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں کہ بسکٹ بیچا جا رہا ہے ۔چلے اس کو چھوڑیں شیو کروانا یا سگریٹ پینا ویسے ہی غلط کام ہے لیکن اگر آپ اسے بیچ بھی رہے ہیں تو اس میں عورت کا کیا کام؟ مشہور کپڑوں کی برینڈ کا اشتہار پچھلے دنوں نظر سے گزرا تو دیکھ کر شرم سے آنکھیں جھک گئیں کہ کپڑے بیچنے کا اشتہار ہے اور عورت کا لباس انتہائی چست اور ناکافی اور اسی پر بس نہیں بلکہ ہیرو کا اس کے ساتھ چپک کر انتہائی نازیبا تصاویر بنوانا ، جناب ذرا یہ بتائے کہ کپڑے بیچ رہے ہیں یا مرد عورت کے تعلقات کو نمایاں کر رہے ہیں ؟
کس کس اشتہار کو روئیں میٹریس ہو یا چاکلیٹ ہو سگریٹ ہو یا موبائل ،یہاں تک کہ موٹر بائیک اور ڈیزل کے استعمال میں بھی عورت کی نمائش ہو رہی ہوتی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں کا عورت سے کوئی تعلق ہی نہیں ان چیزوں میں بھی عورت کو ہی کیوں نمایاں کیا جارہا ہے ؟ کیا عورت ذات اتنی سستی ہے کہ چند پیسوں کی چیز بیچنے کے لئے اس کی نمائش ہو رہی ہے؟؟؟؟
خدارا جاگو پیمرا جاگو چینل مالکان ڈائریکٹر اور خود وہ ماڈل اداکارائیں جو چند پیسوں کے لیے اپنی نمائشی کرتی ہیں سب کو جاگنے کی ضرورت ہے ۔ پروڈکٹ بیچیں عورت نہیں اور عورتیں بھی اپنا وقار اتنا نہ گرائیں ہر ایرا غیرا اس تک رسائی حاصل کر لے ۔ان اشتہارات سے معاشرے میں بڑھتی بے حیائی مزید بڑھ رہی ہے اور بے حیائی کے نتیجے میں بڑھتے جرائم مزید نمو پارہے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بڑھتی بےحیائی کو روکنے کی کوشش کریں، اور ایسی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کریں جن کے اشتہارات اپنی پروڈکٹ سے زیادہ ماڈل کی نمائش کرتے ہیں۔اور جن کا کوئی مثبت اثر نہ ہو بلکہ صرف بے حیائی اور بے راہ روی بڑھتی ہو کیونکہ برائی دیکھ کر احتجاج نہ کرنے والا بھی اتنا ہی ذمہ دار ہوتا ہے جتنا برائی کرنے والا۔ اور جیسا کہ سورہ الانفال کی آیت ٢٥ میں اللّہ تعالی کا ارشاد ہے
“اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پرصرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ۔ 20 اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے” ۔
اس لیے فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم نے برائی کے خلاف نہ بولا تو ہمارا انجام بھی برائی کرنے والوں میں ہوگا ۔
نویرہ عمر