دوہزار انیس کی آمد تک نئے سال کی آمد کی خوشی میں دنیا جہان میں بھر پور طریقے سے اجتماعی تقریبات منعقد ہوتی رہیں اور برقی قمقموں سے آنکھیں خیرہ کردینے والا چراغاں نئے سال کو خوش آمدید کہتا رہا جبکہ دوہزار بیس کو بھی کسی حد تک خوش آمدید کیا گیا لیکن دو ہزار اکیس کو یقناً اس طرح کی بھی پذیرائی ملتی مشکل دیکھائی دے رہی ہے اور دوہزار اکیس بہت خاموشی سے ہمارے درمیان آموجود ہوگا ابھی بھی معلوم نہیں کہ کورونا کے شکار سے ہم میں سے کتنے لوگ نئے سال میں داخل ہوسکیں گے۔ اسی طرح سے تمام ممالک ہی ہر نیا سال کسی نا کسی سے منسوب کرتے ہیں، کسی کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں یا پھر کسی خاص مقصدکی آگاہی عام کرنے کیلئے یا پھر کسی عہد ساز شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے ایسا کیا جاتا رہا ہے۔دو ہزار انیس کے اختتام سے کورونا دوہزار بیس میں ساتھ آگیا اور ایسا آیا کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا، کورونا صرف پاکستان میں نہیں آیا بلکہ ساری دنیا ہی اس کی لپیٹ میں ہے اور کاری ضربوں سے شدید زخم خوردہ ہے۔ پس منظر کی روشنی میں ناچاہتے ہوئے بھی ۰۲۰۲ کے سال کو کورونا سے منسوب کرتے ہیں کیونکہ ہم نا بھی کریں تو کورونا یہ کام خود کر واچکا ہے، اہم بات یہ ہے کہ سال کو کورونا سے پوری دنیا کیلئے منسوب کیا ہے ناکہ کسی خاص ملک یا خطے کیلئے۔ ایک غور طلب بات پیش خد مت ہے کہ تیسری دنیا اور چوتھی دنیا کے ممالک میں کورونا کی تباہ کاریاں اسطرح سے دیکھائی اور سنائی نہیں دیں جیسی کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں گھن گرج کیساتھ تاحال سنائی دی جارہی ہیں (اسکی وجہ یہ بھی متوقع ہے کہ تیسری اور چوتھی دنیا کے پاس وہ نقارہ نہیں کہ جس کی بدولت وہ باقی دنیا کو اپنے حالات سے آگاہ کرسکیں)،اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کیلئے کھوج یا تحقیق شائد ابھی باقی ہے اور کرنی پڑے گی کہ تیسری چوتھی دنیا میں کورونا کیوں کارگر ثابت نہیں ہوا۔ شائد وہ یہ دیکھ کر کہ یہ تو پہلے ہی بھوک اور افلاس کے مارے ہیں اب میں انہیں بھلا کیا ماروں چھوڑ دیا ہوگا اور انسانوں کی تقسیم میں ناانصافی کا غصہ وہاں دیکھانے جم گیا جو آسائشوں کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
کشمیری بلا تفریق جنس و عمر آج بھی حق خود ارادیت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنی جنت نظیر وادی میں موجودقابض غاصبوں کیلئے ہر روزاپنی زندگیوں کو داؤ پر لگائے ایک نئی مشکل کھڑی کرتے چلے جا رہے ہیں وہ تقریباً پچھتر (۵۷) سالوں سے ایک ہی سال میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور انشاء اللہ وہ بہت جلد اپنی آزادی کیساتھ نئے سال کا جشن بھی منائینگے۔ فلسطینی مسلمان تن من دھن کی بازی لگائے اسلامی تاریخ کی بقاء کیلئے برسرِ پیکار ہیں انہیں دیواروں پر لٹکے تاریخ بدلنے کے اوراق سے کوئی سروکار نہیں وہ اپنے خاکی جسموں کو مقدس سرزمین کی سلامتی کیلئے خاک میں بطور پیوند لگائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف شام میں اقتدار کی ہوس میں مبتلاء طبقہ شامی بچوں بوڑھوں عورتوں اور جوانوں کو آگ اور خون میں جھونکے ہوئے ہے تودوسری طرف افغانستان میں مجاہدین اپنی وادیوں میں چھپ چھپ کر دشمن پر کاری وار لگارہے، انہیں نا گھروں میں رہنے والوں کی زندگیوں کی پروا ہے اور نا ہی لفظ ترقی سے کوئی شناساسائی رکھتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ انکی کتابوں میں الگ لفظ ترقی لکھا ہے تو اسکے معنی شائد کچھ ہونگے۔ دشمن اپنے نڈھال ہونے کا اشارہ دے چکا اور تقریباً اپنے زخموں کو چاٹتا ہوا بس اب نکل بھاگنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ظالم اپنے ظلم کی داستانیں رقم کرتا ہوا دنیا کو مختلف بحرانوں میں دھکیلتا جا رہا ہے۔ مذکورہ ممالک کی عوام کورونا کے وارد ہونے سے قبل ہی مصیبتوں کی طویل فہرست میں الجھے ہوئے ہیں۔
ہابیل قابیل سے شروع ہونے والے حادثے ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں،ہر سال کسی نا کسی اندوہناک سانحے حادثے کا امین بنتا چلا جا رہاہے۔ کسی سال کہیں زلزلہ آتا رہا، کسی سال میں وبائی امراض پھیلتی رہیں، کسی سال سونامی نے انسانوں کو قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دیکھا دیا، کبھی کسی ملک کے جنگلوں میں نا قابو میں آنے والی آگ لگ گئی اور کہیں تو آندھی اور طوفان نے قدرت کی طاقت کی جھلک دیکھائی غرض یہ کہ ہر سال کے ساتھ کوئی نا کوئی سانحہ کوئی حادثا رونما ہوتا رہا ہے۔ اسی طرح سے ایجادات بھی ہوتی رہیں لیکن حادثات میں نقصان ہوتا ہے اور وہ بھی انسانی جان کا نقصان اسلئے ایجادات تو زندہ لوگوں کو آسائشیں مہیہ کرتی ہیں۔ موت بر حق ہے اور اس نے ہر ذی روح جس نے دنیا میں آنکھ کھولی اسکو ساتھ لے جانا ہے، لیکن دوہزار بیس میں صرف امریکہ میں ابتک تین لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں (علاوہ طبعی اور دیگر امراض میں مرنے والوں کے)اور یہ وہ امریکہ ہے جو خود کو دنیا کے حاکم کہتے ہیں آسان لفظوں میں دنیا میں ان سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں، اب خود ہی انکی طاقت کا اندازہ لگا لیجئے۔ برطانیہ کو لے لیجئے یہ بھی کورونا سے متاثر ہونے ممالک کی پہلے دس کی فہرست میں شامل ہے اور جہاں اب کورونا نے اپنی کاروائی بھی شدت پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے تقریباً دنیا نے برطانیہ سے اپنے ہوائی، بری اور بہری روابط منقطع کردئیے ہیں تاکہ کورونا کا نیا روپ برطانیہ سے نا نکل سکے (جبکہ ابھی یہ مضمون لکھتے ہوئے ہی سماجی ابلاغ پر خبر چلنا شروع ہوئی ہے کہ برطانیہ والا کورونا پاکستان پہنچ چکا ہے جسکی تصدیق تین برطانیہ سے آئے ہوئے پاکستانیوں میں ہوئی ہے)۔ ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں ہے کورونا سے بچاؤ کی ویکسین بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور آزمائشی عمل سے گزر رہی ہے قوی امکان ہے کہ نئے سال کا اس ویکسین سے بڑا کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا۔دوسری طرف سماجی ابلاغ پر کہیں کہیں ویکسین کے منفی اثرات کا پرچار بھی کیا جارہا ہے جو کہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکا ہے اور محققین اس کی تائد و تردید کرنے سے قاصر دیکھائی دیتے ہیں۔ انسان کسی بھی عقیدے مذہب یا کسی بھی حسب نسب سے تعلق رکھتا ہو پیدا وہ مرنے کیلئے ہی ہوا ہے۔ دنیا کے وجود میں آنے سے اب تک لاتعداد انسانوں نے اس زمین پر اپنی زندگیاں بسر کیں لیکن ایک مکمل فہرست جو یقینا طویل ضرور ہوسکتی ہے جو ان اشخاص پر مشتمل ہوگی جنہوں نے دنیا میں اپنے آنے اور ہونے کی وجہ چھوڑی۔ ایسے ہی باشندے جو عہدے کورونا میں کچھ کورونا کی نظر ہوئے اور کچھ اپنی طبعی موت پیوند خاک ہوئے۔اس ہی سال میں ایسے نایاب گوہروں کی بھی کال پڑتی محسوس کی جارہی ہے جوو اس دار فانی سے کوچ کر گئے علم کو یتیم مسکین کر گئے اودنیا کو سوگوار چھوڑ گئے۔ یقینا انسانیت کورونا سے خوفزدہ ہے۔تقریبا ایک سال سے زیادہ کے عرصے کے بعد بھی ہم اس حقیقت کو حقیقت تسلیم نہیں کر رہے۔
ہم پاکستانیوں کیلئے سال ودہزار بیس (۰۲۰۲) اس لئے بہت اہم تھا کیونکہ اس میں ٹی ٹوئینٹی کے عالمی مقابلے منعقد ہونے تھے یعنی ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا عالمی کپ اور سال بھی ٹوئنٹی ٹوئنٹی۔ اگر دنیا کی بات کی جائے تو انگنت تقریبات اور مختلف کھیلوں کے مقابلے جو دوہزار بیس میں منعقد ہونا طے تھے کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا۔ کھیل کے میدان سے اسکولوں کے کمروں تک سب طرف ایک خوف ایک ہراس کی اجارہ داری رہی۔
بظاہر گزرنے والا پورا سال ہی سوگ اور آسودگی میں ملبوس رہا لیکن راستہ بنانے والوں نے اللہ کی مدد سے راستے بنا ہی لئے اور شائد پہلی دفعہ تکنیکی ایجادات کا سہی مقصد دیکھائی دیا۔سوائے ایک گھر میں مقیم افراد کے تقریباً طبعی ملاقاتوں کا سلسلہ موقوف ہوگیا، زندگی مفلوج ہوتی محسوس کی جانے لگی پھر آہستہ آہستہ آن لائن ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور اس سلسلے کو ایسی تقویت ملی کہ تقریباً اہم ترین ملاقاتوں کیلئے بھی اس طریقے کو ہی ترجیح دی گئی، جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کیلئے اور بھی بہت سارے اجلاس اسی طرح سے ترتیب دئے گئے۔ یہ وہ سلسلہ ہے کہ جس کی بدولت علم والوں کو بہت فروغ ملا ادب کی محافلیں بھی کچھ توقف کے بعد جو آن لائن شروع ہوئی ہیں تو پھر پلٹ کر نہیں دیکھا یعنی شائد طبعی طور پر نا تو اتنے پروگرام ترتیب دئے جا سکتے تھے جتنے کے اب آن لائن منعقد ہورہے ہیں۔ آن لائن کی بدولت پروگراموں پر ہونے والے اخراجات تو تقریباً ختم ہی ہوگئے ہیں وہیں ان ادبی سفید پوش لوگوں کو بہت نقصان پہنچا ہے کہ جن کا گزر بسر مشاعرے پڑھنے کیلئے ملنے والی رقم سے ہوتا تھا۔ آن لائن واحد کورونا کا مثبت پہلو ہے۔دوہزار انیس کے آخیر میں شروع ہونے والا کورونا اب ساری دنیا کو اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ دولت کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگنے والے، علم کے آلاؤ کو مزید بھڑکانے والے سب کے سب دوہزار بیس میں مدھم ہوتے آلاؤ کو دیکھ دیکھ کر گزارتے رہے۔ یقینا دنیا نے اپنے سفر کی رفتار میں خاطر خواہ کمی کردی لیکن یہ سفر تھما نہیں کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ ہوتا رہا، انسانوں نے اپنے خالق سے کچھ وقت کیلئے تو خوف کھایا، ڈرے، سہمے اور قریب تھے کہ اپنے کائنات کے تخلیق کار کو پہچان لیتے لیکن پھر اسی خالق کے عطاء کردہ علم کی مرہون منت طرز زندگی تبدیل کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ آن لائن ہوگیا۔ عددوں کی گنتی میں تبدیلی ایک بار پھر آنے والی ہے دیواروں پر لٹکے اور میزوں پر طاقوں میں رکھے کلینڈر تبدیل ہونے والے ہیں اور معلوم نہیں کہ کہیں تو پچھلے کئی سالوں سے تبدیل ہی نہیں ہوا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ مضمون مطلوبہ احداف حاصل نا کر سکا ہو لیکن جتنا بھی ہے بہت ہے۔ پر امید ہوں کہ نئے سال میں ہم کورونا سے نجات حاصل کر لینگے اور نیا سال دنیا کیلئے کوئی نہیں آزمائش نہیں لائے گا۔ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن اسے اگلے سال کیلئے محفوظ کر لیا ہے اگرمیسر ہوا تھا تو اگلے سال میں نئے جوش و نئے امکانات کیساتھ ملینگے۔ انشاء اللہ