آپ سب بھی واقف ہی ہوں گے کہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف رونے دھونے والے اور دسمبر کو اپنی اداسیوں اور دکھوں کا ذمہ دار ٹھرانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ چونکہ ہم واٹس اپ، فیس بک ، انسٹا گرام کے دور میں سانسیں لے رہے ہیں تو ہر صارف نے حد سے بڑھ کر دکھی دسمبر کی شاعری لگائی ہوتی ہے۔ جس سے ملاقات کرو دسمبر کا نام لیتا اور آہیں بھرتا ہے ساتھ ہی دسمبر کی شاموں کی طوالت اور بے نام سی اداسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر دسمبر یہی دیکھا یہی سنا ہے “دیکھ دسمبر پھر نہ آنا ” اب زمینی گردش کا معاملہ ہے ورنہ دسمبر اتنی ناقدری کے بعد نا ہی آئے ۔ دسمبر میں برفیلی ہوائیں تو چلتی ہی ہیں مگر آپ کو ٹھنڈی ٹھار آہیں واہیں بھی جمانے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ اس بار سوچا کہ پتا تو چلایا جائے یہ نا معلوم سی اداسی آخر کیوں گھیر لیتی ہے۔؟کیا واقعی دسمبر بہت ظالم ہے؟ کیا دسمبر کا نام لیتے ہی دل کی دھڑکن آہستہ ہو جاتی ہے؟ کیا دسمبر واقعی اداسی لئے آتا ہے؟بہت سی دوستوں سے پوچھا کہ بتائیں تو بھلا دسمبر کا واویلا حقیقت ہے یا افسانہ ؟ زیادہ تر افراد کے جواب سے مطمئن نہ ہو سکے۔ ان کو وجہ ہی معلوم نہیں کہ دسمبر کیوں افسردہ کرتا ہے۔ جب پوچھا کہ آپ کے ساتھ کچھ ذاتی سانحہ ہوا تو جواب یہی تھا کہ ارے نہیں ہمیں تو “دسمبر بہت خاص لگتا” ہمیں کوئی دکھ نہیں دیا دسمبر نے۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہم لوگ سنی سنائی باتوں پر تو کان دھرتے تھے ہی، ہم نے سنے سنائے دکھ بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جب اردگرد دسمبر کا واویلا دیکھا تو ہم بھی شامل ہو گئے۔ اس میں ایک بڑا حصہ ہماری شاعری کا ہے۔ گانوں نے بھی خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔بہت کم ہی لوگوں کو اس مہینے کی کوئی شام سہانی لگتی ہے۔
دسمبر پر آپ کو بہت شدید شاعری ملے گی۔(یہ میری ذاتی تحقیق ہے اس سے آپ اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں)۔جس قدر اشعار بلکہ نوہے آپ کو دسمبر پر ملیں گے کسی اور مہینے پر نہیں ملتے۔اسی حوالے سے کچھ دسمبر کے دکھ حاضر ہیں آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا حقیقت ہے کیا افسانہ ہے۔
بعض دفعہ ہمیں دسمبر نے کوئی دکھ نہیں دیا ہوتا بلکہ مئی جون یا ستمبر اکتوبر کا کوئی غم ہمیں پریشان کر رہا ہوتا ہے مگر ہم دسمبر کو کوسنے دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے
بہت غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا مگر رویا دسمبر میں
دسمبر سال کا اختتام ہے تو اس پر بھی اسے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھے حسین مہینے کا سوچ کر ہی خوش ہوا جاتا ہے۔۔
سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا
مزا تو یار دسمبر کے بعد آئے گا
حالانکہ نئے سال کی ایک نظم میں اس کو بھی خام خیالی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیا ہے
“ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں “
دسمبر کی ایک اور خطا اس کی طویل راتیں بھی بتائی جاتی ہیں۔ بلکہ سال کا سب سے مختصر دن اور سب سے طویل رات بھی اسی ماہ میں آتی ہے،اس پر تو الگ رونا ہے۔
لمبی ترین رات دسمبر کی جاگ کر
حاصل یہی ہوا کہ محبت فضول ہے
لگتا ہے شاعر والدین کی پسند پر راضی ہو گیا ہے۔ )اب اگر محبت فضول نکلی تو معصوم دسمبر کا کیا قصور۔ ویسے جنوری سے دسمبر تک مزاج بدل جاتا ہے، اس لئے ممکن ہے عقل آ گئی ہو۔ دسمبر پر الزام یہ بھی ہے لوگ بدل جاتے ہیں۔ اور کہیں چلے بھی جاتے ہیں۔ کہاں جاتے تاحال معلوم نہیں ہو سکا جانے کے ساتھ شاید یاداشت بھی کھو جاتی ہے ۔
وقت ہے جھونکا ہوا کا اور ہم ہیں پیلے پتے
کون جانے اگلے دسمبر تم کہاں اور ہم کہاں
ہمارا مفت مشورہ ہے کہ ان کے تمام پتے سنبھال کر رکھیں تاکہ چلےجانے کی صورت میں تلاش کرنا آسان ہو۔ اور احتیاطا واپسی کا پتہ قمیض کے پیچھے لکھ لیا کریں۔
دسمبر بلکہ سردیوں میں خشک میوہ جات خوب کھائے جاتے ہیں اور خاص طور پر مونگ پھلی مگر لوگوں نے سکون سے مونگ پھلی بھی کھانے نہیں دینی کہتے ہیں۔
میں بوری میں بھر کے لایا ہوں مونگ پھلی
کسی کے ساتھ دسمبر کی رات کاٹنی ہے
اس قدر مونگ پھلی کھانے سے گلا بھی خراب ہو سکتا ہے۔
اچھا جنوری کے جو گن گاتے نظر آتے تھے اور تڑیاں لگاتے تھے اب دسمبر میں ان کے الگ رونے ہیں۔ پہلے ہی انسان اتنے بڑے بول نہیں بولتا۔
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں ہے دسمبر اکیلے ۔۔۔
پرانے وقتوں میں دسمبر میں خوب بارشیں ہوا کرتی تھیں تو اس وقت کا رونا الگ تھا “بھیگے بھیگے دسمبر” کی دکھی راگ الاپے جاتے تھے۔اب گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہم نے قدرتی موسموں کا بیڑہ غرق کیا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب دسمبر کم کم ہی برستا ہے اب اس کا الگ رونا ہے۔
دسمبر ہوش کر پیارے تجھے یہ کیا ہوا آخر
بنا برسے چلے جانا تیری عادت نہ تھی پہلے
بھلا بتائیں حضرت انسان اپنی عادتیں نہ سدھارے بس دسمبر کو ہی ہوش کرنے کا کہے۔
میری عزیزہ سائکائٹرسٹ ہیں ان سے پوچھا کہ اپنی ماہرانہ رائے دیں کہ دسمبر کے رونے کیوں ہوتے ہیں ؟؟ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی حد تک حقیقت ہے کہ سردیوں میں ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک میں خودکشی کا تناسب بھی سردیوں میں بڑھ جاتا ہے۔ بہرصورت جو بھی معاملہ ہے ہم تو یہی کہیں گے” دسمبر کو عزت دو!”