ایک پاکستانی محمد سلیم روزگار کے سلسلے میں جاپان چلا گیا۔ وہاں اسے ایک درمیانی سی فیکٹری میں ملازمت مل گئی۔ قیام کا ابتدائی زمانہ تھا اس لیے اسی ملازمت پر اکتفا کر لیا۔ وقت کی پابندی بھی ضروری تھی اس لیے محمد سلیم مقررہ وقت سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی فیکٹری پہنچ جاتا۔ لیکن اس کا دل دکھتا جب وہ وہاں ایک 75 سے 80 سالہ ایک عورت کو عملے کے ساتھ مل کر صفائی کرتے ہوئے دیکھتا۔ وہ اکثر وبیشتر اس بوڑھی عورت کے بارے میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ اس بیچاری کی اولاد نہ ہو۔ یا ہو بھی تو۔۔۔ نا فرمان ہو۔۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کا خیال نہ رکھتی ہو۔ پتہ نہیں کیا مجبوری ہے بچاری کی۔۔۔۔۔ جو اسے اس عمر ناتواں میں پیٹ پالنے کے لیے محنت ومشقت کرنی پڑ رہی ہے۔
اسی خیال کے تحت محمد سلیم نے اس بوڑھی عورت کی مدد کرنے کا سوچا کہ یہاں کام کرنے والے چند لوگ مل کر ماہانہ طور پر اس کی مدد کرتے ہیں تاکہ اس بیچاری کو کچھ آرام مل سکے۔ محمد سلیم نے اپنے اس خیال کا اظہار اپنے ایک ساتھی ورکر سے کیا جو کئی سالوں سے اس فیکٹری میں ملازم تھا لیکن اس کا جواب سن کر محمد سلیم ہونق رہ گیا۔ ساتھی ورکر۔۔۔۔۔محمد سلیم کی بوڑھی عورت کے ساتھ اظہار ہمدردی سن کر مسکرا دیا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
یار۔۔۔ آپ اس عورت کے غم میں اپنا آپ نہ گھولیں۔ یہ بوڑھی خاتون صفائی کرنے والی نہیں بلکہ اس فیکٹری کی مالک ہیں۔ یہ تو صرف اپنی اچھی صحت اور اپنا آپ فٹ رکھنے کے لیے کام کرتیں ہیں۔
اب آتے ہیں اسی تناظر میں پاکستان کی طرف۔۔۔۔۔ صرف تین دہائی پہلے تک پاکستان میں اچھی تنخواہ یا اچھی آمدن رکھنے والے اکثر گھرانوں کی خواتین اپنے گھروں کا کام خود کرتیں تھیں۔ پھر دیکھا دیکھی گھروں کے کام کام والیوں کے سپرد کرنے شروع کر دیے اور آج حال یہ ہے کہ جس گھر کا مرد 30یا40 ہزار ماہانہ کماتا ہے اس گھر میں بھی کپڑے دھونے یا صفائی کرنے کے لیے ملازمہ مقرر ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ دیہاتوں یا شہروں میں بہت سی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری یا کام کرتیں ہیں لیکن ایسی عورتوں کا تناسب صرف 5 فیصد ہے باقی 95 فیصد یا تو صرف اپنے گھروں کا کام کاج کرتیں ہیں یا پھر ملازمین سے گھروں کا کام کروانے میں ہی تھک جاتیں ہیں۔
میں نوکر چاکر رکھنے کے خلاف نہیں لیکن اس بات کے خلاف ضرور ہوں کہ اپنے اجسام کو اتنا آرام دے دیں کہ آرام کر کر کے ان سے بیماریاں پھوٹنا شروع ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ کا مفہوم بھی ہے اور حکماء کی تحقیق بھی۔۔۔۔۔ کہ ہر بیماری معدے سے شروع ہوتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب انسان خوراک تندرست والی کھائے گا اور آرام بیمار والا کرے گا تو پھر جسم تو بیماریوں کی پوٹلی ہی بنے گا۔
ہمارے پیارے مذہب اسلام کی تو تعلیم بھی ہے کہ اگر اونٹ پر سوار شخص کی چھڑی نیچے گر جائے تو سوار پیدل کو یہ نہ کہے کہ میری چھڑی پکڑا دے۔ بلکہ سوار خود نیچے اترے اور اپنی چھڑی پکڑے۔ اس طرح سستی کو سخت ناپسند کیا گیا۔ ٹانگیں گھسیٹ کر چلتے ہوئے ایک شخص کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈانٹ کر کہا کہ ’’مومن ایسی سستی والی چال نہیں چلتا‘‘تاریخ کی ورق گردانی کر لیں یا حالات حاضرہ کا مشاہدہ۔
جن قوموں نے سستی چھوڑ کر محنت کو اپنایا وہ ترقی کی طرف گامزن ہوئیں اور جنہوں نے محنت سے جی چرایا۔ چھوٹے موٹے کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا وہ دن بدن ترقی پذیریت کی طرف ہی گئیں۔ سوسائٹیز میں صبح صبح اتنی تعداد میں چہل پہل مکین لوگوں کی نہیں ہوتی جتنی کام والیوں کی ہوتی ہے۔ گھروں کے کام کا کیا ہے وہ گھر میں بیٹھیں خواتین آسانی سے خود بھی کر سکتیں ہیں۔ یہ صرف بیمار یا ملازمت پیشہ خواتین کی مجبوری ہے کہ وہ کسی دوسری عورت سے کام کروائے۔ کثیر تعداد میں انڈسٹریاں وکارخانے پاکستان کی ضرورت ہیں۔ اگر گورنمنٹ اور معاشرے کے امیر لوگ انڈسٹریاں لگا لیتے ہیں تو یہی لیبر ان کارخانوں میں تعمیری کاموں کے لیے مہیاء ہو جائے گی۔ جس سے ملک کی برآمدات یقینی طور پر بڑھیں گی اور درآمد میں کمی آئے گی۔ پھر ہمیں سوئی ، بٹن، قلم، پنسل، اور تسبیح جیسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے دوسرے ممالک کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا۔ جب روز گار عام ہو گا تو غربت اور جرائم میں بھی کمی ہو گی۔ ہمیں جاپان اور چین کی ترقی کے راہ عمل پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ پھر ان کی طرح ترقی اور صحت مند زندگی ہمیں بھی نصیب ہو گی۔ ان شاء اللہ