قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے بانی ہیں ان کا شمار اعلی درجے کی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے آپ کے والد پونجا جناح ایک تاجر تھے محمد علی جناح نے ابتدائی تعلیم کراچی کے ادارے سندھ مدرسۃ الاسلام سے حاصل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے وہاں سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور واپس ہندوستان آکر بطور وکیل اپنے کیریئر کا آغاز کیا محمد علی جناح انگلستان کے نظام حکومت کو پسند کرتے تھے۔ آپ کو انگریزی لباس پسند تھا اور انگریزی زبان میں گفتگو کرتے تھے وہ ایک جدت پسند نوجوان تھے۔کم عمری میں ہی اپنی محنت لیاقت اور قابلیت کی بنا پر وکالت میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔
قائد اعظم ایک وکیل ہونے کی حیثیت سے عوام کے سیاسی حقوق کا گہرا شعور رکھتے تھےوہ ہندو مسلم اتحاد کے پر جوش حامی تھے انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی دور میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا میثاق لکھنؤ کے بعد انہوں نےاپنےچودہ نکات پیش کیے جن کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔1920ء میں وہ آل انڈیا کانگریس سے الگ ہوگئے جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کا موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔ کانگریس چھوڑ کر وہ انگلستان واپس چلے گئے۔
اکثر مسلم رہنما شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے مگر تقسیم بنگال اور پھر اس کی منسوخی کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ ہندو جو اکثریت میں تھےکسی طرح مسلمانوں کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتے تھے اور ہر حال میں ہندوؤں کی بالادستی چاہتے تھے 1906ء میں مسلم رہنماؤں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ثابت ہوئی۔ مسلم رہنماؤں پر واضح ہوچکا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے آزاد وطن کا حصول ضروری ہے۔ 1930 ءمیں الہ آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال نےایک علیحدہ مسلم ریاست کا خیال پیش کیا جس سے تمام مسلم رہنماؤں نے اتفاق کیا۔ علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو قائل کیا کہ وہ ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کریں اور علیحدہ وطن کے حصول کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں محمد علی جناح جو ہندوؤں اور انگریزوں کے رویئے کا بہت قریب سے مشاہدہ کر چکے تھے علامہ اقبال کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور ہندوستان واپس آ گئے انہیں مسلم لیگ کا صدر چن لیا گیا قائداعظم کی بے لوث قیادت میں مسلمانان ہند نےآزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قائداعظم کی صدارت میں ایک جلسہ ہوا جہاں قرار داد پاکستان منظور کی گئی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 میں محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
محمد علی جناح حقیقت میں عظیم رہنما تھے وہ بلند کردار کے مالک تھے انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا اسی بنا پر ان کے مخالفین نے ہمیشہ ان سےمات کھائی انہوں نے سیاست سے منافقت کو ختم کیا آپ کی قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا جو کہتے کر کے دکھاتے تھے ۔ انہوں نےمسلمانوں کے حقوق کی جنگ قانونی دلائل کے ساتھ جیتی۔ وہ اپنے مقصد کا گہرا شعور رکھتے تھے انہوں نے نہ صرف تحریک پاکستان کو کامیابی سےہمکنار کیا بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی پیرانہ سالی کے باوجود قوم کی اس طرح رہنمائی کی کہ چند سالوں میں ایک کمزور مملکت مضبوط ملک کے طور پر دنیا میں ابھر کر سامنے آئی۔ پاکستان کو ایک سازش کے تحت اس کے اثاثوں سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ یہ نو زائیدہ مملکت پروان نہ چڑھ سکے مگر قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستانی قوم عظیم جدوجہد کے بعدایک مضبوط اسلامی ملک کی صورت میں اٹھی جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید کا روشن چراغ ہے۔
محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے بعد پہلی گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا پاکستان کو آغاز سے ہی انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بڑی مشکلات میں ہندوستان سے لٹے پٹے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری ، ملکی اداروں کا قیام اور استحکام عوام کی دل جوئی اور تربیت کرنا شامل تھے قائد اعظم نے بدرجہ اتم اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ان کی صحت مسلسل کام کرنے کی وجہ سے نہایت خراب ہو چکی تھی مگر انہوں نے ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ صحت کے کن مسائل سے دوچار ہیں آپ نے مہاجرین کی آباد کاری کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی قائداعظم کی پیروی میں عوام نے بھی بڑھ چڑھ کر مہاجرین کی امداد کی ملکی اداروں کے قیام اور استحکام کے لیے مختلف مقامات کے دورے کیے اور عوام کی رہنمائی فرمائی مسلسل محنت اور ان تھک کوششوں سے پاکستانی قوم کو متحد کیا مگر اس دوران آپ کی صحت جواب دے گئی اور قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں قوم نے آپ کو قائد اعظم کا خطاب دیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم کو تھوڑا ہی وقت ملا کہ وہ اس نوزائیدہ مملکت کی تعمیر کر سکیں مگر اس قلیل عرصے میں انہوں نے قوم کو رہنمائی کے لیے بہترین اصول دیے قائداعظم کی تقریریں اور خطابات کا ایک ذخیرہ آج بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں وہ رہنما اصول موجود ہیں ان پر عمل کر کے ملک و قوم کامیاب ہوسکیں۔
تنظیم، اتحاد ،ایمان قائداعظم کے تین سنہری اصول ہیں جن پر عمل کرکے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور ایک آزاد ملک حاصل کیا۔ انہی اصولوں پر قائم رہتے ہوئے ایک نوزائیدہ ملک مضبوط طاقت کے طور پر ابھرا انہی اصولوں نے ایک شکستہ حال قوم کو توانائی دی اور اس نے دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔مگر افسوس آج ہم نے ان اصولوں کو فراموش کر ڈالا ہے نہ ہم میں تنظیم اور نظم و ضبط باقی رہا نہ اتحاد۔ فرقہ پرستی اور تعصب نے ملک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قوم کی وحدت پارہ پارہ ہو چکی ہیں عوام علاقائی اور نسلی گروہوں میں بٹ گئے ہیں جن خرابیوں کی قائداعظم نے نشاندہی کی تھی وہی آج ہم میں در آئی ہیں۔ تنظیم اور اتحاد ختم ہونے کی وجہ سے ہمارا یقین پارہ پارہ ہو چکا ہے اس ملک کے قیام اور استحکام ،اسلامی نظام اور اس کی بنیاد دو قومی نظریہ پر سوالات اٹھنے لگے ہیں آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قائداعظم کےپیغام کو زندہ کریں اور اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں چلنے کے عزم کو تازہ کریں اس ملک میں جو قائد اعظم کی قیادت میں اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اسلامی نظام کو قائم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان نہ صرف موجودہ بحران سے باہر آجائے گا بلکہ کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔