حرف”ص” کی اہمیت

کہنے کو یہ ایک حرف ہے مگر اس سے بننے والے حروف بہت ہی معنی خیز اور غور طلب ہیں بلکہ مجھے ایک ایسا پیغام ملا جس میں اس حرف “ص” کو زندگی کیلئے ایک اہم وٹامن کا نام دیا گیا۔

دیگر زندگی کیلئے مخصوص وٹامنز کی طرح اس وٹا من “ص” کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے روح کی غذائی اہمیت واضح ہوتی ہے جو انسانی رویوں اور اعمال کیلئے بنیادی کلید ہے۔ عمل صالح جو دلوں کو سکون بخشتے ہیں اور صالحین کی صفت ہے۔ اسی طرح “خبر”ایک وسیع اور جامع مفہوم لئے ہوئے ہے۔ رسول ﷺ کو بھی اللہ نے صبر کی تلقین کی تھی۔ ایک مومن کی پوری کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے۔ آپؐ کو بھی حضرت یونس ؑکی سی بے صبری سے بچنے کی تلقین ہے یعنی انبیاء تک کو دعوت، تبلیغ اور حق کی ادائیگی میں پیش آنے والے مصائب پر ہمیشہ صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی لئے تو سورۃ العصر میں اہل معاشرہ کا ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے اور خسارے سے بچنے کا موجب کہا گیا ہے۔ تمام صحیفوں میں بالکل درست اور صحیح باتیں بتائی گئی ہیں۔” صلوٰۃ ” جنت کی کنجی اپنے اندر ایک مکمل نظا م لئے ہوئے ہے۔ اسی لئے اسے آنکھوں کی ٹھنڈک کہا گیا ہے۔ نماز ہمیں بے حیائی اور فحاشی سے بچاتی ہے تو گویا ہمارے لئے سلامتی کے در کھولتی ہے۔ ہماری روح کو تراوٹ بخشتی ہے۔ وقت کا پابند بنا کر ہمیں زندگی کا مقصد سمجھاتی ہے۔ جسمانی اعضاء کو صاف ستھرائی کے ساتھ ساتھ بہترین ورزش کے ذریعے چاک و چوبند رکھنے والی نماز ہی تو مومن کی معراج قرار پاتی ہے۔ گویا یہ تو دعا رحمت کی ہم پلہ ہے۔اس لئے صلوٰۃ کی بے پناہ تا کید ہے عین عبادت لازمی، سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا کیونکہ نماز مومن اور کافر کا فرق ہے اور وقت پر ادائیگی افضل ہے۔ بے نمازی کی تو نماز جنازہ تک پڑھانے کا حکم نہیں۔ پھر بچے کی پیدائش پر دی جانے والی اذان کی نماز ا س کی موت پر نماز جنازہ کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔ پیدائش اور موت دونوں سے انسان بے خبر مگر اذان اور نماز کی اہمیت اور ادائیگی کتنی باعث رحمت ہے۔ سبحان اللہ۔ نماز میں ہی وہ سجدہ ہے جو بندے کو رب سے قریب ترین کر دیتا ہے اور رب کی عنایات سمیٹنے کا موجب بنتا ہے۔ اسی طرح اس اہم وٹامن کا ایک فائدہ “صدقہ “ہے۔ جو بندے کو بری موت سے بچاتا ہے، بلائوں کو ٹا لتا ہے اور آخرت میں اس کیلئے سرخ روی کا باعث ہے۔ صدقات اور خیرات کی اہمیت معاشرتی خوشحالی اور امن کا پیغام ہے۔ گویا اسی سے “صلئہ رحمی” اجاگر ہوتی ہے جو انسانیت کا وصفِ خاص ہے اور جانوروں سے ممتاز کرنے والی شے ہے۔ جس میں صلئہ رحمی نہ پائی جائے وہ تو پھر بھی صدقے کو بھی نہ جا نے گا۔ ایک دوسرے کے بے لوث کام آنا، مدد کرنا، اپنی صلا حیت، وقت، مال جان کو اللہ کی خاطر اللہ کی مخلوق پر لگانا صدقہ ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال اس طرح رکھنا کہ کسی کو بھی کوئی تکلیف نہ ہو، بھلے صدقہ دینے والے کو قربانی دینے پڑے۔ صدقہ صرف مال کا ہی نہیں ہوتا بلکہ کسی کو اچھا مشورہ دینا، کسی کو وقت دینا، خدمت کرنا، برائیوں سے بچتے رہنااور دوسروں کو نصیحت کرنا، دین کی راہ پر لانے کی کوشش کرنا، راستے سے تکلیف دہ چیز، پتھر، شیشہ غلاظت کا دور کردینا صدقہ ہے۔ اپنے مال میں سے حق داروں پر خرچ کر نا صدقہ ہے اور تو اور اپنے مسلمان بھائی کو مسکرا کر دیکھنا صدقہ ہے تا کہ ماحول پرسکون اور حالات پر امن ہوں جبکہ صلح رحمی اللہ کی ہزاروں مخلوقات، انسان، جانور، پیڑ پودے سب کے ساتھ سدھار اور بناؤ کا ایسا عمل ہے جس کا نتیجہ تعمیری ہے خوش گوار ہے۔ ان سب کاموں کے کرنے کیلئے بڑے صبر و ضبط کی ضرورت ہے کیونکہ جس طرح پانی کا کوئی رنگ اور ذائقہ نہیں ہوتا مگر اس کی اہمیت زندگی کیلئے کتنی زیادہ ہے گویا جسمانی زندگی کا دارومدار ہی پانی پر ہے بالکل اسی طرح اس لفظ “ص” سے مطلقہ ان صفات، صبر، صلوٰۃ، صالحہ اعمال، صدقہ اور ان پر ثابت قدمی روحانی زندگی سے وابستہ ہے جبکہ روحانی زندگی جسمانی زندگی پر حاوی ہے۔ جسم مٹی کا ہے مٹی میں مل جا ئے گا “روح”آگے بڑھے گی کیونکہ موت تو ایک درمیانی وقفہ ہے۔

موت کو سمجھا ہے غا فل اختتام زندگی

ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

اللہ تعالیٰ روحوں کو دوبارہ جسم دینگے اورحشر کے روز اسی لئے برپا ہوگا کہ ہار جیت کا اعلان ہو گا تو ساتھیوں کتنا اہم اور مقدس ہے یہ لفظ “ص” کہ اس کے نام کی ایک سورت قر آن پاک میں موجود ہے جس میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اور صحت یابی کا واقعہ بتا کر ہمیں صحت جیسی نعمت کے شکر کا احساس دلایا گیا ہے۔ مبار ک ہیں وہ لوگ جو صحت مند ہیں اور صحت مند رہنے کا شکر ہر دم بجا لاتے ہیں اور صحت کو بیماری سے برتر جان کر اچھے کام وقت پر شکر گزاری سے کرتے جاتے ہیں۔ آج ساری دنیا صحت کے مسئلے سے دوچار ہے سب کو صحت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ صحت گنواکر صحت کی قدر کتنی بڑھ جاتی ہے ایک مریض ہی جان سکتا ہے۔ رب کا کتنا شکر ادا کریں تو کم ہے جس نے بے شمار نعمتیں دیکر ہمیں صحت مند زندگی سے مالا مال رکھا ہے ہم برسوں سانس لیتے پانی پینے کھاتے سوتے جاگتے ہیں مگر احساس نہیں کرتے ان میں سے کوئی ایک بھی چیز کم ہو جائے یا زیادہ ہو جائے تو ہماری صحت کے لالے پڑ جاتے ہیں۔”کرونا”میں پتا چلا کہ لاکھوں روپے خرچ کرکے بھی چند سانسیں بحال کرنا کتنا مشکل ہے؟ جسے تکلیف ہے اس کیلئے بھی اور جو وینٹیلیٹر کا خرچہ برداشت کررہا ہے اس کے لئے بھی پھربے کس اور بے بس بندہ بن جاتا ہے ۔ پھر صحت مند زندگی پر شکر ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی حفاظت کی خاطر مرعوب ترین چیز سے بھی پرہیز کرتا ہے۔ نفسانی خواہشات کو کیسے لگام ڈالتا ہے۔ کاش ہمیں اپنی کوتاہیوں اور رب کی مہربانیوں کا شعور آجا کے ہم اپنے رب کو منالیں۔ اپنے تمام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو بخوشی نبھائیں تو پھر زندگی کا نہ صرف مزہ ہے بلکہ زندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے صابر اور شاکر بندوں میں شمار کرے اور اللہ کی نعمتوں اور ان حکمتوں کو سمجھنے برتنے کا شعور دے اور ہمیں نفس کی خواہشات اور شیطانی خرافات سے محفوظ فرمائے۔ آمین ۔ اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائے تمام طرح کے مریضوں کو شفا ئے کلی عطا فرما ئے اور زندگی کو عافیت عطا فرمائے۔ ایسی عافیت جو دونوں جہاں میں کام آئے کسی کو نہ رلائے اور اپنی بے پناہ رحمتوں سے آگے بڑھائے۔ آمین