کسانوں کا عالمی دن

انسان  کی بنیادی ضرورت ہے خوراک اور اس کے حصول کے دو زرائع ہیں  اوّل  زرعی اجنا س کے زریعے دوم جانوروں کے زریعے ۔انسانوں کی آبادی جیسے جیسے بڑھتی گئی انسان نے اپنے خوراک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے زمینوں کو آباد کرنا شروع کیا مختلف قسم کے اجناس کو اگانے کا طریقہ سیکھا ۔بنجر زمینوں کو سرسبز شاداب کھیتوں میں تبدیل کرنے والے اور انسانوں کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے والےمعاشرے کے اس غریب انسان کو دہقان یا کسان کہتے  ہیں ۔آج معاشرے کے سب سے زیادہ جس غریب طبقے کا استحصال کیا  جارہا ہے وہ یہی کسان ہے جو کہ اس وقت اپنے کھیتوں  میں جاتاہے جب ساری دنیا  اپنے نرم گر م بستروں پر خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے ۔آج دنیا میں سب سےبڑا مسئلہ غذائی قلت کا ہے اس پر تمام دنیا کے دانشور اور ادارے بحث و مباحثوں میں مصروف ہیں مگر اس کسان کے بارے میں اور اس کے مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے ۔دنیا کے وہ ممالک جو کہ بنیادی طور پر  زرعی ممالک ہیں وہاں تو اس طبقے کے ساتھ  غیر انسانی سلوک  اور مظالم ناقابل بیان ہے ۔پڑوسی ملک ہندوستان جس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے آج وہاں  پورے ملک کے لاکھوں کسان سڑکوں پر آنے اور حکومت کے ظلم پر مبنی   کسان پالیسی کے خلاف احتجاج اور دھرنا دینے   پر مجبور ہیں  ۔ اپنی غربت اور ملک کی ظالمانہ پالیسی کی وجہ سے اب تک ہزاروں کسان  خود کشیاں کرچکے ہیں جس پر پوری دنیا میں تشویش  پائی جارہی ہے ۔انہی ظالمانہ پالیسوں کا سلسلہ جارہی ہے کہ حالیہ دنوں حکومت ہندوستان نے ایک اور پالیسی بناڈالی جس پر کسانوں میں مزید مایوسی پھیلی ہے اور وہ اب دہلی کی سرحد پر “دہلی بند کرو ” کے تحت دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اس دھرنے میں تین سو سے زائد کسان تنظیمیں اور ہزاروں کسان ملک بھر سے آئے ہیں اس احتجاجی دھرنے میں  مردوخواتین شامل ہیں اور اس ظالمانہ پالیسی کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ مطالبات منوا کرہی واپس جائیں گے ۔

ا ب آتے ہیں پاکستان کی طرف، ماضی قریب کی بات ہے کہ ایک موٹر سائیکل کمپنی کا اشتہار آیا کرتاتھا  اس میں یہ دکھایا جاتا تھا کہ ایک کسان ،جب اس کی فصل تیار ہوکر  منڈی میں  فروخت ہوجاتی تھی تو اس کو اتنا منافع ملتا تھا کہ وہ خوشی سے کہتا تھا کہ ” میں  تے ہنڈا ی  لے ساں ”  ہمارا ملک بھی بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اس پر اللہ کا خاص انعام ہے کہ  چاروں موسم یہاں ہوتے ہیں وسیع وعریض زرخیر سونا اگلتی زمینیں   ہیں تو معدنیات سے بھرے پہاڑ  ، کہیں دریاں تو کہیں سارا سال کھلی رہنے والی بندر گاہیں ہیں ، پھلوں سے لدے باغات  جس میں انواع و اقسام کے پھل اور میوے ہوتے ہیں ۔مگر یہاں بھی ساری دنیا  کی طرح سرمایہ دار  نہ نظام  کااژدھا  پھن پھیلائے  ساری خوشحالی کو جہاں نگلتا چلا جارہا ہے وہاں اس غریب کسان کی زندگی بھی محفوظ نہیں ۔ہر سال گنے کی فصل کو جلانے کی لکڑیوں کے بھاؤ خرید نےکے لیے کسانوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے وہ بیچارا  اپنی پوری جمع پونجی اپنی فصل پر لگا چکا ہوتاہے بلکہ  قرضدار ہوچکا ہوتاہے  اور گنے سے بھری ٹرالی لیے شوگر مل کے دروازے پر اس کے کھلنے کا انتظار کرتاہے کہ اس کو جائز منافع حاصل ہوگا اور اس سے وہ  اپنے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرسکے گا مگر وہ اور اس کےگھر والے اس بات سے بے خبر اپنی آنکھوں میں کتنے ہی خواب سجاچکا ہوتے ہیں ، کسان کو اس بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کے خلاف  کتنی    ہوشیاری سےسرمایا دار کے ساتھ  میٹنگ کرکے  گنے کی اس فصل کو جلانے کی لکڑیوں کی قیمت  فی من مول لگاکر  اس کا استحصال کرنے کو تیاری کرلی گئی ہے  ۔پھر جان بوجھ کر مل مالکان گنّے کو خریدنے  میں تاخیری حربہ استعمال کرتے ہیں تاکہ گنّا پڑے پڑے سوکھتا جائے اور بالاآخر اونے پونے دام لے کر کاشتکار ان کو فروخت کرکے چلے جاتے ہیں اس خطرے کے پیش نظر کہ جو قیمت مل رہی ہے کہیں اس سے بھی ہاتھ دھونا نہ پڑجائے ۔ بالکل اسی طرح تمام فصلوں کی خریداری میں یہ ظالم سرمایا دار یہی کرتاہے کیونکہ یہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہوتے یہ بڑ ے بڑے وزراء ہوتے ہیں اور ان کے ایجنٹ ہوتے ہیں ۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے یہاں سونا اگلتی ہوئی زمین  کے ساتھ  جفاکش کسان بھی ہے اور اس پر قدرت کا یہ تحفہ بھی پاکستان کو ملا ہے کہ چاروں موسم اپنی پوری آب وتاب سے  آتے ہیں ۔دریا ہیں کہ سارا سال ان میں پانی رواں رہتاہے ۔ دنیا کا بڑا نہری نظام موجود ہے ۔ان سب کے باوجود اگر اس ملک میں گندم ، چینی ،آلو ، ٹماٹر جیسی چیزیں  باہر سے درآمد کرنی پڑے تو یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ

جس رزق سے میّسر نہ دہقان کو روزی

اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کا جلا دو​

مسئلہ  نہ زمینوں کی زرخیزی کا ہے ، مسئلہ نہ محنت کش کسان کا ہے اور نہ ہی مسئلہ  پانی کی قلت کا ہے ۔مسئلہ   زرعی  ناقص پالیسی کا ہے جو کہ بیرونی  ڈ کٹیشن سے بنائے جاتے ہیں ۔یہ زرعی اصلاحات کے نام پر کسانو کا استحصال ہے  ۔حکومتی سطح پر اگر کسانوں کے مسائل  کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو  سبز انقلا ب آسکتاہے اور غذائی قلت  دور ہوسکتی ہے  جس کے نتیجے میں اناج اور دیگر سبزیوں کی درآمدات سے نجات حاصل ہوسکتی ہے ۔ درآمدی  اخراجات کے نتیجے میں  ملکی خزانے پر بوجھ پڑتاہے اور بالاآخر یہ بوجھ عوام کے سر پر دے مارا جاتاہے ۔ پیداوار اگر بہتر ہوگی تو اپنی ضروریات سے زیادہ   پیداوار ہم دوسرے ملکوں کو برآمد  کر کے کثیر زرمبادلہ کماسکتے ہیں جس سے ہمارا ملک تر قی کرسکتاہے ۔کسانوں کو مفت زمینیں  فراہم کی جائیں  اس کے علاوہ کسانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے ایک پڑھا لکھاتربیت  یافتہ کسان ہی  ہمارے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتاہے ،کسانوں کو غیر سودی  قرضے آسانی سے دیئے جائیں  بجلی ، پانی ،کھاد ،ادویات اور بیج  سستے داموں دئیے جائیں ۔ اس کے علاوہ زرعی کالج اور یونیور سیٹیا ں ملک کے ہر شہر میں بنا ئے جائیں۔اگر  اس پر سنجیدہ  اقدامات نہیں کئے گئے تو کسان  نئی موٹر سائیکل تو کیا  نئی چپل بھی نہیں خرید سکے گا۔