وفدِ طارق کے نام سے رسول اللہ ﷺ کا ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک دن حضور سیر کرتے کرتے مدینہ منورہ سے باہر ایک چرواہ گاہ گئے وہاں ان کو ایک سرخ اونٹ پسند آگیا تو حضور ؐ نے پوچھا یہ اونٹ بیچو گے ؟ تو تا جر نہ جا نے بیچنا چاہتا تھا یا نہیں لیکن آپؐ کو دیکھ کر کہاہاں بیچنا ہے ۔ قیمت بتا ئی آپؐ نے کہا کہ میں تو خریداری کی غرض سے نہیں آیا تھا بلکہ سیر کو آیا تھا ۔ مجھے یہ اونٹ پسند آگیا تو میں نے سودا کر لیا لہٰذا انہوں نے اونٹ کی ڈور پکڑی اور آگے چل پڑے ۔ تا جر انہیں کافی دیر تک دیکھتا رہا جب وہ نظر سے اوجھل ہو گئے تو پھر تا جر کو خیال آیا کہ قیمت تو لی نہیں تو اس کے قافلے والے سے پوچھا کوئی اسے آپ ؐ کوجانتا ہے ۔ کسی نے کہا میں تو اس شخص کے حسن میں کھو گیا ۔ مجھے تو اس کی آنکھوں نے مدہوش کردیا ۔ اسے دیکھ کر مجھ پر سحر طاری ہو گیا ۔ کسی نے کہا اس کا نورانی چہرہ دیکھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی مگر کسی کو اس شخص کا اتا پتا معلوم نہ تھا پھر ایک وہ سرخ قیمتی اونٹ لے گیا اب وہ نہیں آئے گا ۔ تاجر سے سودا کیا قیمت طے کی ۔ اچانک اونٹ کی قیمت طے کرکے لے گئے ۔ وہ حضور کی رفتار کے حسن میں کھو گئے تھے لہٰذا وہ شرمندہ ہوا کہ نہ گروی رکھی نہ کوئی ضامن رکھا ، اپنا پتا بھی نہیں بتایا اور اونٹ بھی لے گیا ۔ یہ کیسے ہوا؟ کوئی انکی مسکرا ہٹ میں کھو گیا۔ کوئی باتوں کے پھول جھڑنے پر فدا تھا ۔ کسی نے بھی سودے کی کامیابی کا نہیں بتایا۔کیا ان کا اعجاز تھا! ان کے حسن میں سب کھو گئے ! ایک نے کہا کہ اپنا حسن کا جادو جگا کر قیمتی اونٹ ہتھیا کر لے گیا ۔ اب وہ نہیں آئے گا ۔ امام ذوقیانی نے جب یہ کہا تو یہ سن کر “کہ ہتھیا کر لے گیا “قافلے کے سردار کی بیوی نے خیمے سے پردہ سر کا کر کہا کہ اس شخص کی ضمانت میں دیتی ہوں ۔ تو اس شخص نے کہا اچھا تو آپ اس کی ضامن ہو ؟ اس نے کہا نہیں میں نہیںجانتی ہوں مگر جب تم سودا کر رہے تھے اس وقت میں نے خیمے سے اس شخص کا چہرہ دیکھا تھا اور جس کا چہرہ اتنا سہنا ہو وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا ! ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دور سے ایک شخص بہت سی کھجوریں لا یا اور اس تا جر کو دیں اور کہا کہ اس شخص نے کہا تھا کہ شہر جا کر اونٹ کی قیمت بھجوائے گا ۔ یہ کھجوریں ہیں انہوں نے بھیجی ہیں آپ کی ضیافت کیلئے ۔ اس شخص نے کہا وہ شخص رہتا کہاں ہے ۔ تو اجنبی شخص نے کہا وہ سامنے جو کھجوروں کے جھنڈ ہیں وہاں وہ شخص رہتا ہے ۔ یہی ڈیرہ ہے اس مدنی ماہی کا ! اس شخص سے انہوں نے کہا کہ ہم ان کھجوروں کو بیچ کر قیمت کیا لیں گے؟ ہم تو خود بک گئے ، تیری ادائوں پر بک گئے ۔ سارا قبیلہ اٹھا اور حضو رؐ کی خدمت میں حا ضر ہوا ۔ حضور ؐکے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر مسلمان ہو گیا ۔ “وفد طارق”کے نام سے اس کی شہرت ہے۔ اس طرح اسلام قبول کرلیا ۔
دیکھنے والے کہتے ہیں کہ”یاد آتا ہے خدادیکھ کے صورت تیری “واقعی یہ واقعات کتنے غور طلب ہیں اور کردار کی کیسی مثال پیش کرتے ہیں ۔ میں سوچ رہی تھی انسان کا چہرہ ہی تو اس کی پہچان ہوتا ہے ۔ آپؐ کا جو کچھ بتایا گیا ہے وہ کس قدر معتبر اور برگزیدہ ہے ، ہلکی داڑھی اور اور مناسب بال ، کنگی کئے ہوئے ، ہلکے یا سفید کپڑے ، صاف ستھرے ، عاجزانہ چال اور پرخلوص مشفقانہ انداز بیان ، محبت کی زبان ، اخلاق و کردار کہ ہر کوئی مرمٹے ! جبکہ آ ج جائزہ لیا جائے ہمارے نو جوانوں کا تو سبحان اللہ ۔!!
بہت سے مسلمان بھائی مناسب داڑھی اور مناسب حلیہ رکھتے ہیں دیکھ کرخوشی ہوتی ہے مگر میڈیا کے مارے اکثر نوجوان اپنی پہچان بگاڑے جا رہے ہیں کیونکہ انکا چہرہ ، مہرہ ، بال اور اسکی تراش خراش انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ اوپر نیچے ہلکے گہرے وسترا کئے بال ، عجیب وغریب اندازوں کی بدلتی ہوئی داڑھیاں ، مونچھیں اور پھر بالوں کے آڑھے ٹیڑھے انداز اور پھر جوڑا یا چوٹی کتنا برا مذاق ہے !چہر ہ تو چہرہ حلیہ بھی بے تکا، لباس بھی نا شائستہ لکھنے سے بھی شرمندگی ہورہی ہے مگر دیکھنے دکھانے پہننے پہنانے والوں کو یہ برائی ، برائی نہیں لگ رہی بلکہ وہ خوش ہیں کہ دنیا کے ساتھ چل رہے ہیں یعنی اپ گریڈ ہوئے ہیں ۔ اللہ کی پناہ ! آج کے نوجوان اگر ایسے ہیں تو کل آنے والے ان کے بچے کیسے ہونگے؟ مقامِ غور ہے کہ ہم اپنی تہذیب خود کیسے تباہ کر رہے ہیں ۔ پھر محمدؐ کے امتی اور ان سے محبت کا دم بھرتے ہیں ۔ ہاتھ ، پیر ، گردن ، پیشانی بھی گدواتے ہیں اور نقش و نگار بنواتے ہوئے کوئی عارمحسوس نہیں کرتے! تو ہم کہاں کے مسلمان؟ خدارا کرونا سے بھی سبق نہ لیا ۔ نہ ڈر ے نہ سہمے نہ تھمے کیوں؟ کیا ہمارے ضمیر سو گئے ہیں ؟ ہم کہاں کھو گئے ہیں ۔ رسول کے امتی ان حلیوں میں کیسے کہلا سکتے ہیں؟ خدارا اپنے آپ پر غور کریں ، اپنے رہن سہن کو ، اپنے لباس، اسٹائل کو شریعت کے مطابق ڈھالئے ۔ شریعت کو اپنائیے ۔
اتباع رسول ہی ہماری پہچان ہے ۔ جب وضو جو نماز کی کنجی ہے بہت اچھی طرح اچھی نیت سے ہوتا ہے تو اس کی نماز بھی اتنی ہی اچھی ہوتی ہے ۔ اس طرح جب ہمارا حلیہ چہرہ مہرہ درست ہوگا تو ہی ہم مہذب اور با ادب ہونگے ورنہ حلیے کا اثر بھی الٹا ہوگا ۔
میڈیا اس سلسلے میں بہترین رول ادا کرسکتا ہے اسے کرنا چاہئے ورنہ تباہی کا ذمہ دار یہ میڈیا اور اس سے وابستہ ہزاروں لوگ ہیں جو گناہ جاریہ کو شغل کا نام دیکر تفریح کرجائیں گے مگر یاد رکھیں! ناظرین اور سامعین متاثرہ فیشن کی بیماریوں میں ملوث ہو کر ہر لمحہ رہتی دنیا تک گناہ جاریہ کے مستحق ہونگے ۔ کیا میڈیا والے یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کتنی بڑی سزا کے مستحق ہونگے؟ جو ہر چینلز سے تکرار کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو دکھاتے ہیں بلکہ برائیاں سکھاتے ہیں یا اسکا حصہ بنتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوکہ اسلامی ملک کی حیثیت سے شریعت کے مطابق ہمارے حلیے ، پروگرام ، مقاصد اور ہمارا مکمل ضابطئہ حیات اس نہج پر رکھوا یا جائے کہ دنیا کے لئے ہم رول ماڈل ہوں لوگ ہمیں دیکھ کر سیکھیں ہر چیز سے لباس سے لیکر خیال تک ، اصلا حی اور فلاحی ہو ورنہ تو ہماری زندگی کا مقصد بھی وہی ہو کہ “کھالے ، پی لے اور جی لے”ہر واقعہ ہمیں عبرت اور سبق لینے کیلئے ہوتا ہے ۔ ہر آزمائش ، بیماری ، پریشانی کو آگاہی سمجھ کر سنبھلنا ہے ، سمجھنا ہے اور پھونک پھونک کر زندگی گزارنی ہے۔ تب ہی تو ہم امت وسط کے خلیفہ ہونے کا حق ادا کرسکتے ہیں ۔ ہم صرف برائی سے بچتے ہوئے ہی اچھائیوں کو پھیلاسکتے ہیں ۔ کوے کی چال ہمیں کبھی زیب نہ دیگی۔ اللہ تو ہے ہی رحیم ۔
آزمائشیں ہم پر آتی ہیں جو مصیبت ہم پر آتی ہیں وہ دراصل ہماری اپنی کو تاہیوں کی وجہ سے آتی ہیں ۔ ہم بہت ٹھوکریں کھا چکے ہمیں سنبھلنے کی ضرورت ہے اس سدھار میں ہمارے میڈیا کو اور نوجوانوں کو جتنا فعال ہونے کی آج ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔ خود احسابی اور احساسِ ذمہ داری ، خوف خدا ہی ہمیں ان برائیوں سے بچا کر راہِ راست پر لاسکتا ہے کیا آپ اس سے متفق نہیں ؟