انسانوں کے غیر انسانی روئیے!

تقریباً مضامین نا چاہتے ہوئے بھی کورونا سے شروع ہوتے ہیں (اللہ تعالی ہمیں اس آزمائش سے جلد از جلد نجات دلائیں)۔ آج کل موبائل فون پر کسی کو کال کریں تو کورونا کیلئے ایک پیغام تقریباً سماء خراشی کرتا ہے اور بعض اوقات تو دوسری طرف سے فون وصول نا کئے جانے کی وجہ سے پورا پیغام سننا پڑتا ہے۔جی ہاں حکومتی سطح پر کیا جانے والا یہ ایک انتہائی اہم کارنامہ ہے لیکن اسکے باوجوداکثریت ایسے اصحاب کی ہے جو مذکورہ پیغام سن تو رہے ہوتے لیکن افسوس وہ بغیر ماسک پہنے گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔کیونکہ ہم انفرادی طور پر ترجیحات کا تعین کرنے سے قاصر رہے ہیں اسی لئے ہم بطور قوم بھی اپنی ترجیحات کا تعین تا حال نہیں کرپائے ہیں، ہم نظم و ضبط سے عاری ہیں، ہم کسی بھی مسلۂ کیلئے قومی محاذ نہیں بنا پائے جس کیلئے ہمیں تاریخ کوکریدنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کورونا کی صورت میں موجود بحران کو ہی لے لیجئے۔ اگر ہم دنیا سے موازنا کریں تو ہم بہت حد تک بطور قوم اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے آرہے ہیں اور شائد یہی وجہ ہے قدرت کی عطاء کردہ مہلت کے باوجود ہم نے تاحال سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ جس کا کسی حد تک خمیازہ بھگتا جا رہا ہے۔

قدرت نے کرہ عرض پر ہر وہ شے پیدا کی جسکی طلب بنی نوع انسان کے دل و دماغ میں پنہاں رکھی گئی (انسان کو اپنی چاہ کی بھی کھوج لگانی پڑتی ہے پھر کہیں جاکہ اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے اور یہ وہی پنہا ہے جو قدرت نے دل ودماغ میں پوشیدہ رکھ کر ہمیں جستجو کی ترغیب دی ہے)۔حضرت آدم ؑ ایک عمل (ہم خطاء نہیں لکھ سکتے) کی بدولت زمین پر بھیجے گئے یہاں سے انسانیت کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوااور اسطرح سے علم کی ترویج شروع ہوگئی، محدود سے لامحدود کا سلسلہ شروع ہوگیا جو تاحال جاری و ساری ہے۔قدرت کرہ عرض کے مخصوص خطوں اور علاقوں میں اپنے پیامبر بھیجتی رہی۔ جہاں سب سے اہم بات یہ کہ قدرت کو انسانوں کو اپنی بنائی ہوئی دنیا میں رہنے کیلئے ضروریات سے آگاہی فراہم کرنی تھی تو دوسری طرف اس دنیااور اس میں رہنے کیلئے ہر شے کے مہیہ کرنے والے تخلیق کار کا شکر ادا کرنے کاطریقہ کار کو واضح بھی کرنا تھا۔ درحقیقت قدرت اپنے مخصوص بندوں کو علم کی روشنی سے خیرہ کرتی رہی اور انکے لئے ایک ایک پیدا گردہ ذرہ اپنے اندر علم کے خزانے چھپائے ہوئے رہا اور ان صاحب علوم کے ذمہ لوگوں کی رہنمائی کا ذمہ لگایا ہوا۔ قدرت کی طرف سے کوئی نا کوئی سیدھا راستہ بتانے کیلئے تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ آج دنیا میں رائج علوم کی گنتی کریں تو شائد فہرستیں ترتیب دینی پڑیں۔ لیکن ہر علم کی بنیاد اسی آگاہی سے ملی جو قدرت کے نامزد کردہ بندوں سے ملتا ہے۔

ہمیں دنیا دیکھانے والوں نے مذہب اور دنیا کو الگ الگ زاوئیے سے دیکھانے کی ہر ممکن اقدامات کر رکھے ہیں اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ وقت کی بے رحمی کی نظر ہونے والے ہم جیسے لوگوں کو قدرت کے تعینات کردہ لوگوں سے دنیا داروں نے بطور مذہبی بتایا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر علم انہیں برگزیدہ بندوں کی میراث ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو علم کا حقیقی سرچشمہ ہیں۔ چودہ سو سال سے زیادہ ہوچکے یہ سلسلہ ہمارے پیارے نبی ﷺ پر ختم ہوچکا یعنی علم کی جتنی قسمیں ہوسکتی تھی وہ سب کی سب ہمارے پیارے نبی ﷺ پر اتارے گئے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے بتا دیں جس میں ایٹم بم سے لیکر سوئی بنانے تک کا علم موجود ہے، پانی کے جہاز سے ہوائی جہاز بنانے کے طریقے ہیں،ہر اس بیماری کا علاج ہے جو دنیا میں ہوسکتی ہے،ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی احادیث سے اپنی سنتوں سے قرآن کو آسان ترین کر کے ہمارے درمیان راہ ہدایت کیلئے چھوڑکررہتی دنیا تک کیلئے احسان عظیم فرمایا۔

آپ ﷺ کے اخلاق ساری دنیا میں بسنے والے انسانوں کیلئے تاقیامت تک مشعل راہ ہے اور دنیا کی وہ آبادی جو آپ ﷺ کے ماننے والوں میں نہیں یعنی مسلمان نہیں ہیں لیکن وہ آپ ﷺ کے اخلاق سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی اپنی زندگیاں ہی نہیں اپنے معاشرے آپ ﷺ کی تعلیمات کیمطابق ڈھال لئے جسکا نتیجہ آج ہم سب کے سامنے ہے وہ دنیا میں فلاح پاگئے اور غالب کردئیے گئے ہیں۔ہم نے انکے علم کو اپنی ترقی کا ذریعہ ہی نہیں بنایا بلکہ ضامن سمجھ لیا اور ہم مسلسل تنزلیوں کی جانب گامزن ہوگئے۔ جنہوں نے ہمارے نبی ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنا تعلیمی نصاب مرتب کیا وہ آج کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ نظم و ضبط، احترام انسانیت، سچائی، دیانت داری یہ وہ چند ایسے معاشرتی عنصر ہیں کہ جن کو اپنا کر مغرب نے ترقی کی ہے۔ انکے رہنما ء ان بہترین خصوصیات کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں جن کا حوالہ پیچھے کیا جاچکا ہے۔ ہمیں یہ جان کر بھی شائد حیرانگی ہو گی کہ یورپ کے بعض ممالک کے قوانین میں حضرت عمر ؓ کے نافذ کردہ قوانین شامل ہیں۔

مضمون لکھنے سے قبل عنوان جو ذہن میں تھا وہ ہمارے سیاست دان اور انکے سیاسی روئیے تھا لیکن جب لکھنا شروع کیا تو قلم سیاسی سے انسانی روئیے کی طرف چل نکلا۔ آج ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے کیا اس کا کہیں سے بھی تانا بانا ملک کی بہتری اور بھلائی سے قریب قریب بھی ملتا دیکھائی دیتا ہے، کیا یہ کھلی کتاب کی طرح نہیں کہ ملک میں موجود تقریباً سیاسی جماعتیں اپنے نطرئیے یا اپنے منشور کے دفاع کی بجائے اپنے اپنے قائدین کی بدعنوانی کو بچانے کیلئے میدان عمل میں ہیں۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کی کوئی بات کرتا سنائی دے رہا ہے دوسری طرف ہمارے سیاسی اور ہمارے مذہبی دشمن ایک مضبوط گٹھ جوڑ کرنے میں کامیابی کیساتھ برسرپیکار ہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ کورونا جیسی وباء پاکستان میں کس بے دردی سے اپنے وار کر رہی ہے ان نام نہاد سیاسی رہنماؤں کو اپنی فانی بقاء کی خاطر معصوم پاکستانیوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں جو اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ یہ کوئی بھی ایسا موقع جس سے پاکستان یا پاکستانیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے ضائع کرنا نہیں چاہتے۔انسان اپنی نجی بقاء کی خاطر اجتماعی طور پر تحریکیں چلا رہے ہیں اور اس بات کو بھی خاطر میں نہیں رکھتے کہ حالات و واقعات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے۔ یہ روایہ ہی ہے کہ ہم آج جس وباء سے پہلے بچ کر نکل آئے تھے پھر پھنستے جا رہے ہیں۔ ہم سیاست یا ذاتی مفادات کو وقتی طور پر موقوف کرنا پڑے گا ورنہ بربادی ہمارا مقدر ہوجائے گی۔ یہاں مقصد کسی کی طرف داری نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنے کی کوشش ہے کہ برے کا انجام برا ہوتا ہے یہ ایک کائناتی سچائی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی ادارہ، کوئی شخصیت ایسی نہیں بچی جس کا کہا مانا جائے، ہر طرف من مانیوں کا دور دورہ ہے۔اللہ پر مکمل بھروسہ ہے کہ بہت جلد ادارے بھی مضبوط ہوجائینگے، معتبر افراد جن کی سنی جائے گی منظر عام پر آجائینگے اور انصاف، امن اور ایمانداری کا بول بالا بھی ہوجائیگا۔ انشاء اللہ

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔