بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے اسے نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا ہے اسکا مذہب سکھ، ہندو، مسلم یا عیسائی ہے۔ وہ بس ایک نومولود بچہ ہوتا ہے۔ ننھی کونپل کی طرح
آہستہ آہستہ اردگرد کے اثرات لیتے پروان چڑھتا ہے۔ اس بچے کا پہناوا کیسا ہو؟ کھانے کے آداب کیسے ہو؟ اسکا چلنا اٹھنا بیٹھنا سب والدین ہی بتاتے ہیں ۔
اور متعلقہ مذہب کے اندد رہتے ہوئے پرورش کرتے ہیں۔اسکے سیکھنے کا عمل ماں کی گود سے شروع ہوجاتا ہے۔ جب چھوٹا بچہ انگوٹھا منہ میں ڈالتا ہے ماں اپنے بچے کا انگوٹھا منہ سے نکال دیتی ہے۔ اس لے کہ کہی بچے کو عادت نہ پڑ جائے۔ یہی اسکا پہلا سبق ہوتا ہے۔ اب ماں ہر اچھے برے فعل پے نظر رکھتی ہے جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا اسکے سیکھنے کے مدارج اور طور طریقے بدلتے رہتے ہیں ۔
والدین سے الگ ماحول کے اثرات بچوں کی تربیت پے پڑتے ہیں جب بچے باہر نکلتے ہیں آس پاس کی تبدیلیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب بچہ باہر سے کچھ غلط سیکھ کر آئے کوئی غلط لفظ تو یہ نہ کہے کہ چھوٹا ہے، بچہ ہے،خیر ہے، بلکہ اسے سمجھائے اپنی یہی سوچ رکھے کہ اگر آج یہ کہہ رہا ہے کل پھر کہے گا پھر عادت ہو جائے گی۔
یہی بری عادت بڑے ہوکر کسی لڑکی کی زندگی بھی خراب کرسکتی ہے۔
چھوٹے چھوٹے افعال کو نظر انداز کرنا بعد میں بڑی غلطیوں کا مرتکب بنتی ہے۔ ایک عظیم شخص نے کہا تھا ” تم اپنے بچوں کو جیسے چاہیں ویسا بنا سکتے ہے شروع سے ہی اسے وہی چیزیں فراہم کرے جیسا آپ اسے مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں “
بچوں کی اچھی اور بری صحبت انکے کردار پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ چیز بچوں کے افعال و کردار میں مثبت اور منفی تبدیلی لے کر آتی ہے۔
آجکل کا دور جدید دور ہے یہاں کتاب کی جگہ موبائل نے لے لی ہے۔ کسی بھی کتاب کا مطالعہ کرنا ہو تو لوگ کتاب سے زیادہ موبائل پے پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اسی طرح و الدین بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائےٹی وی شوز اور دیگر چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں ۔ حالانکہ والدین کو چاہے کہ اپنے بچوں کو سمجھے اندرونی اور بیرونی تبدیلیاں بھی اکثر بچوں کو چڑچڑا بنا دیتی ہیں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے سے بہت حد تک انکے مسائل حل ہوجاتے ہیں انکے اچھے دوست اگر والدین بن جائیں تو زندگی میں وہ کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
جبکہ بچوں کے گہرے دوست انکے والدین کو ہی ہونا چاہے جس سے وہ بنا جھجھکے اپنی بات کہہ سکے۔۔
ہمارا المیہ ہی یہی ہے بچوں کو ڈانٹنا جس سے وہ والدین سے خائف ہو جاتے ہیں ۔ غصے میں والدین کوئی غلط بات کہہ دیتے ہیں اور یہ کام بچوں کو گراں گزرتا ہے ۔ بچوں کے احساسات کو سمجھنا ماں پاب پے بھی ضروری ہے۔ انکی باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے اس سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسلام کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے کہ بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آیا جائے انکے ساتھ ہمدردی کا جذبہ رکھا جائے۔
اس بدلتے ماڈرن دور میں سب کچھ الٹ گیا ہے جہاں اولاد نافرمان ہیں تو والدین بھی اپنی شوسل سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ماحول کی روش ہی کچھ ایسی ہے دونوں خود ایک دوسرے سے بہتر تصور کرتے ہیں جبکہ ماں پاب کے بغیر اولاد کچھ نہیں اور اولاد کے بغیر ماں کا آنگن بے رونق ہے۔