بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں!‎

کہیں پڑھا تو ایک دم سے شعر پہ دل آگیا ۔۔۔ جس کا ایک مصرعہ کچھ یوں تھا۔۔

~ آئے دسمبر نمی گھلی ہے تیری فضاوں میں۔۔!

ذہن میں یادوں کا ایک سفر شروع ہوگیا تھا۔۔۔دھنکی اجلی یادوں کا۔۔۔!

وہ 1947 کے خوشیوں بھرے دن کہ جب ریڈیو پاکستان نے اعلان کیا کہ

 “پاکستان وطن عزیز نے ہندوستان سے آزادی پالی ہے۔۔”

کیا مسرت سی مسرت! دل جیسے پوری قوت سے دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے اور ہر سانس اپنی خوشی کا اظہار کرے ۔۔۔ پہلی مملکت کہ  جو دو ٹکڑوں پہ مشتمل تھی۔۔پہلی اسلامی ریاست۔۔!

اور وہ کانٹوں بھری یادیں جو گھائل کردینے والی ہیں۔۔۔

یہ کیا کہ حاسدوں کو ہماری فتح نہ بھائی اور ہماری بنیادیں کھوکلی کرنا شروع ہوگئے۔۔نہیں جناب یہ جملہ غلط جملہ ہے جملہ مکمل کچھ یوں ہے “کچھ ہماری مجبوریاں اور نظر اندازیاں تو کچھ مشرقی پاکستان والوں کی معصومیت اور سب سے بڑھ کر باطل کا اتحاد !!

بالاخر گھر اور در دونوں کو دو ہوگئے۔۔اور رشتے  لسانیت کی بھینٹ چڑھ گئے!

جب بھی کبھی تاریخ سے نگاہ گزرتی ہے دل واقعی روتا ہے، کیسے ایک طرف ہمارے مشرقی پاکستانی بھائی نظرانداز ہوئے اور دوسری طرف دشمن نے کیسے لسانیت کا زہر  پھونکا!!۔۔۔

اپنے ہی مسلمان بھائیوں نے اپنے ہی مسلمان بھائی کو صرف رنگ نسل کی بنیاد پہ کاٹا اور دشمن قہقے لگاتا اپنے مشن میں ایک بار پھر مصروف ہوگیا۔

“نہ کسی عربی کو عجمی پہ کسی عجمی کو کسی عربی پہ کوئی فوقیت نہیں، رنگ و نسل کے سبھی بت آج میرے پاوں کے نیچے ہیں۔ تم میں سے بہتر وہ ہے تقوی میں بڑھ کر ہو”۔ ( الحدیث)

جئے بنگلہ کی اواز اور مکتی باہنی کے شور و غوغا میں۔۔حدیث کے نقوش دھندلے ہوتے چلے گئے۔۔۔اور تقریبا مٹتے ہی گئے۔وہ خوبصورت اور حسین شہر دھاکہ، بنگال اور وہ ہندو سامراج کی سازشیں۔۔

پچھلے دنوں کسی بچے کہ سامنے سقوط ڈھاکہ کا لفظ کہا تو وہ ہنسنے لگا، پہلے سقوط اس کو اچھنبا لگا کسی اور دنیا کا لفظ  اور پھر  ڈھاکہ (ڈاکہ)۔۔

وہ واقعہ کہ: ایک بنگالی پاکستانی نوجوان ہندؤں کے ساتھ مل کر مکتی باہنی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل کررہا تھا اور پکڑے جانے پہ معلوم ہوا کہ ء47 کی جنگ میں اپنے گھر کا واحد وہی بچا تھا ، 7 شہداء پاکستان کا وہ واحد غازی۔۔۔۔لیکن سوچوں کو غلط رخ دینے والے اساتذہ ، دوست اور تعصب و لسانیت کی فضاء نے اس کو یہاں تک پہنچادیا تھا۔۔۔ وقت نے پر لگائے اور اغیار کی سازشیں ، اپنی کمزوریاں اور باطل کے اتحاد نے مشرقی پاکستان کی طاقت کو ٹوڑ ڈالا۔۔

ایسے میں وہ  نور الہی کے زیر سایہ البدر کے نوجواں۔۔۔!

 کہ جن کا مقصد اگ بجھانا تھا  جو آگ اور خوں کے دریا میں بند باندھنے اترے اور اپنے ناتواں وجود سے جتننا کرسکتے تھے اس سے بڑھ کر کیا اور امر ہوگئے۔۔۔!بازو ٹوٹنے کی وجوہات تو بہت ہیں لیکن کیا ہم نے انفرادی اور قومی محاسبے کئے۔۔!

وہی دور ہے وہی چیلینجز۔۔۔ زبان اور لسانیت سے مسئلے ویسے ہی ۔۔حکومتی کمزوریاں بھی اور باطل تو پھر ہمیشہ متحد ہی رہتا ہے۔۔!

گمراہ کن پروپگینڈے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ۔۔ !اور وہ 16 دسمبر کا سیاہ دن ۔۔۔۔ کتنے دل ڈھڑکتے ڈھڑکتے بند ہوگئے تھے ۔۔۔ایک بازو ٹوٹ گیا۔۔۔ الگ ہوگیا۔۔۔فریکچر نہیں،، ٹوٹ گیا۔۔۔

ہاں ہاں کاٹنا پڑا رگ و پے میں لسانیت کا زہر پھیل گیا تھا نا۔۔۔ہاں وہ ہڈی بھی جئے بنگلہ سے بھربھری ہوگئ تھی۔۔۔!مملکت خداداد دولخت ہوگئ۔۔!

اخری تصویر متحد باطل اور بکھرے ہوئے غم و غصے میں کھڑے حقائق سے نظریں چراتے مسلمان۔۔!

یوں تو کہنے کو گھر ہے سلامت رہے  !

کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے۔۔۔!

انفرادی  رابطوں میں یہ شعوری طور پر سوچنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی اپکی نطراندازی یا غفلت کی وجہ سے  بدگمان ہوکر کسی اور جانب تو نہیں نکل گیا ہے۔۔!اور اہم بات  یہ کہ ہمیں رنگ و نسل کی قید سے نکلنا ہوگا۔ نا ہر پنجابی دھوکے باز ہے نا ہر سندھی کرپٹ ہے ۔۔۔! نہ ہی ہر مہاجر ظالم اور سفاک ہوتا ہے۔۔

یہ انسانوں کے بنائے گئے معیارات ہیں ایک دو کی غلطیوں کی وجہ سے پوری قوم  غلط نہیں ہوتی۔اس دنیا میں برے لوگوں سے زیادہ یا برابر کے اچھے لوگ ہیں اس ہی لئے یہ دنیا قائم ہے۔  روزمرہ کی زندگی میں لسانیت کی اور تعصب کی باتوں کو کم سے کم کرنا ہماری زمہ داری کہ ہمارے رکنے سے قطرہ قطرہ بنتے نفرتوں کے دریا میں کچھ قطرے کم ہوجائیں گے۔۔!

” مومن تو اپس میں بھائی بھائی ہیں۔”

جب کوئی قوم اپنے غداروں اور دشمنوں سے بے خبر ہوجاتی ہے اور معملات کو حالات کے دھارے پہ چھوڑدیتی ہے  تو پھر شکست  فاش ہی مقدر بنتی ہے۔۔اجتماعی سطح پہ اس عظیم سانحے کا لوگوں کو شعور ہونا بہت اہم ہے ورنہ  مستقبل کےحالات بہت کڑوی باتیں کرتے ہیں۔

آج کی نوجوان نسل  کو کوشش کرکے سقوط ڈھاکہ سے متعلق ضرور کسی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو قومیں اپنی تاریخ نہیں پڑھتی ہیں پھر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔۔!

شرق سے غرب تک میری پرواز تھی

  ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا

ایک بازو پہ اڑتا ہوں میں آجکل

دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں۔۔!!!

خدا میری ارض پاک کو تا قیامت سلامت رکھے آمین!۔