استعفوں کا موسم

ملک کے جغرافیائی موسم کے سرد ہوتے ہی سیاسی ماحول میں اس قدر گرمی آچکی ہے کہ بات پی ڈی ایم کے استعفوں تک جا پہنچی ہے۔اگرچہ استعفوں کے بیانیہ کے بارے میں ہر جماعت کا اپنا قبلہ ہے۔کسی سیاسی جماعت کے سیاسی قبلہ کا رخ مشرق کی طرف ہے تو کسی کا مغرب کی جانب۔کوئی دسمبر میں استعفے دینے کی بات کر رہا ہے تو کسی جماعت کا لیڈر استعفوں کی بجائے سیاسی پچ کو چھوڑنے یا خالی کرنے کے حق میں نہیں ہے۔مثلا پی ڈی ایم کے روح رواں محترم مولانا فضل الرحمن کا بیان ہے کہ اکتیس دسمبر تک استعفے اپنے اپنے چیئرمین کو جمع کروا دئے جائیں۔قمر الزماں کائرہ کا کہنا ہے کہ جو بھی پارٹی کے چیئرمین کا فیصلہ ہوگا وہ ماننے کے پابند ہیں۔جبکہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا بیان ہے کہ جمہوریت کی بقا کے ہم قائل ہیں اور اس کی ماں کہا کرتی تھی کہ سیاسی پچ کو کبھی خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔اسی طرح ن لیگ کے ہر راہنما کا اپنا اپنا بیانیہ ہے،جس سے پارٹی نظم وضبط کا اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔یا دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی راہنما درست فرماتے ہیں کہ ن لیگ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ایسا لگتا بھی ہے کیونکہ شہباز شریف اور حمزہ شریف کے بیانات کہ وہ اداروں کی مخالفت نہیں لینا پسند کریں گے۔اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ اندر سے واقعی شکست وریخت کا شکار ہو چکی ہے۔اس سارے سیاسی ماحول میں مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس میں ذو معنی ہنسی کو میں جب بھی دیکھتا ہوں تو مجھے ایک بہت پرانا لطیفہ یاد آجاتا ہے کہ

ایک کمپنی کے باس نے انتہائی بے کار قسم کا لطیفہ سنایا جس پر ہر بندہ نے جو باس کی تابعداری اور’’ٹی سی‘‘کرتا تھا زور زور سے ہنسنا شروع کردیا ماسوا ایک لیڈی سیکرٹری کے۔باس نے پوچھا کہ کیا تمہیں میرا لطیفہ پسند نہیں آیا،تو لیڈی سیکرٹری نے جواب دیا کہ سر میں نے آج دفتر سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ایسا ہی حال کچھ مولانا صاحب کا ہے کہ مولانا نہ تو خود ممبر قومی اسمبلی ہیں اور نہ ہی اس بار کسی کمیٹی کے چیئرمین ہیں تو ان کے خیال میں سبھی سیاستدانوں کو جتنا جلدی ہو سکے استعفے دے دینا چاہئے تاکہ نئے الیکشن کا ماحول بنایا جا سکے۔لیکن کیا قانونی اور آئینی حیثیت سے ایسا ممکن ہے کہ اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے تمام ممبران قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دے دیتے ہیں تو نیا الیکشن کروایا جاسکتا ہے۔آئین پاکستان اور قانون کی رو سے ایسا ممکن نہیں ہے اگر تمام پی ڈی ایم کے ممبران بھی استعفے جمع کروا دیتے ہیں تو پھر بھی عمران خان وزیراعظم پاکستان رہیں گے ،ہاں جن نشستوں سے ممبران استعفے جمع کروائیں گے ان خالی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کروا دئے جائیں گے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا خیال ہے کہ آنے والے سینٹ کے انتخابات میں جو حالیہ برتری پیپلز پارٹی کی ہے وہ رہ پائے گی یا نہیں۔اس لئے پیپلز پارٹی کبھی نہیں چاہے گی کہ ان کے ممبران استعفے پیش کریں۔ہاں پی ڈی ایم کا حصہ ہوتے ہوئے سیاسی کھیل کا حصہ رہتے ہوئے وہ اپنے استعفے اپنے چیئرمین کو ضرور جمع کروا دیں گے۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے ممبران کے استعفے ااسپیکر قومی اسمبلی کو جمع کروائیں گے کہ نہیں۔

بلاول بھٹو ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کے حالیہ بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی بقا کے لئے اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاسی پچ کو کبھی بھی خالی نہیں چھوڑنا ہے۔اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پی پی کے بعد دوسری بڑی سیاسی پارٹی ن لیگ ہی رہ جاتی ہے جو اگر استعفے دے بھی دے تو حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ان تمام باتوں سے اہم بات یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کی تمام گیارہ پارٹیوں کے ممبران استعفی جمع کروائیں گے؟کیونکہ بہت سے ممبران تو ایسے ہیں جو کسی نہ کسی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی سیٹ کو انجوائے کر رہے ہیں تو ایسے میں انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے استعفے اسپیکر یا پارٹی کے چیئرمین کا صدر کو جمع کروائیں۔

ان تمام بیانات،حالات و واقعات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم صرف اور صرف ملک میں انتشار کا ماحول پیدا کرنا چاہ رہی ہے تاکہ عوام سڑکوں پر آئیں اور حکومت خود ہی استعفی دے کر گھر چلی جائے۔ایسا سوچنا ماسوا دیوانہ کے خواب کے اور کچھ نہیں ،وہ اس لئے کہ عوامی تحریک سے حکومتیں اتنی جلد گھر نہیں جاتی۔دوسرا یہ کہ پی ٹی آئی ظاہر ہے باقی پارٹیوں سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی میں آئی ہے اور اپنی حکومت بنائی ہے۔اگر پی ڈی ایم اپنے ورکرز کو سڑکوں پر لانے کی تحریک پیدا کرتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی والے ایسا نہیں کریں گے۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر عوامی احتجاج میں نقصان کس کو ہوگا؟ملک کی سرکاری املاک کے نقصان کو ذمہ دار کون ہوگا؟کیا ملک ہم سب کا نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر استعفے آخری آپشن رکھنے کی بجائے پہلی ترجیح رکھیں،اور باقی عوام کو موبلائزیشن،تحاریک،احتجاج،ریلیاں،توڑ پھوڑ،گرائو جلائو،ان سب کو دوسری اور آخری ترجیح میں رکھیں۔وہ اس لئے کہ عوام کو انتشار کی راہ دکھانا جمہوریت نہیں بلکہ افرا تفری ہے۔ایسا صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں و یا تو خود پرست،مفاد پرست ہوں یا پھر انارکی پھیلانے والے ہوں۔لہذا حکومت یہ سب جانتے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے کہ پی ڈی ایم کبھی بھی استعفے پیش نہیں کرے گی۔اگر حکومت کو کسی قسم کا کوئی استعفوں کا خوف ہوتا تو پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور خود وزیر اعظم یہ بیانات جاری نہ کرتے کہ حزب اختلاف کیا سوچ رہی ہے اگر انہوں نے استعفے دینے ہیں تو جلد کریں۔ہم دوبارہ الیکشن کروا دیں گے۔اور ایسا پی ڈی ایم کے تمام ممبران نہیں چاہتے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت سے پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں کے صدور وچیئرمین جانتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔