خودی کے بت

پہلے دور میں اسلام دلوں میں تھا، ایک صاف وشفاف پانی کے عکس کی طرح جھلکتا دکھائی دیتا تھا ۔شیطان نے سوچا لوگوں کو بت پرستی کی طرف کیسے لایا جائے ۔۔۔؟ یہاں تو سب ہی اسلام کے داعی ہیں۔

ان لوگوں میں اگر کوئی ان کا پیارا مر جاتا تو بین کرتے سوگ مناتے، مہینوں یاد رکھتے، شیطان نے یہ سب دیکھ کر اپنا شیطانی دماغ استعمال کیا اور لوگوں کے درمیان بھیس بدل کر آیا ۔انکے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ جو مر جاتے ہیں انکی مورتیاں گھڑ لی جائیں، اسطرح وہ مرنے کے بعد بھی نظروں کے سامنے رہینگے ۔ پھر لوگوں کے دلوں میں بت پرستی کا رجحان غالب آنے لگا ۔اسطرح سے لوگ کفر پرستی کی طرف دھنستے چلے گے۔

ان بتوں کو توڑنے کے لیے ابراہیمؑ آئے، دلوں سے اور خانہ کعبہ سے بتوں کو پاک کر دیا،لیکن کہیں نہ کہیں اَن جانے میں ہم نے بت پرستی سے بھی خطرناک عمل خود پرستی شروع کر دی ہے۔

حقیقت تھوڑی کڑوی ہے، پہلے دور کے بت نظر آتے تھے، انکا خاتمہ ممکن تھا۔آج کے بت،آج کے بت نظر نہیں آتے ، دلوں میں موجود ہیں مختلف اشکال اور ہیولوں میں،”لوگ کیا کہیں گے” اسکا بُت

“اونچا سٹیٹس ہونا چاہیے” اسکا بُت

“پگڑیاں اونچی رہیں” اسکا بُت

“دوسروں کو گرانا” اسکا بُت

ان کا کیا ہوگا۔۔؟ کون توڑے گا انہیں ۔۔؟ کیونکہ اب تو کوئی ابراہیمؑ نہیں آئے گا۔یہ بھی تو خود کے تراشے گئے بُت ہیں، فرق بس اتنا ہے کہ اب یہ نظر نہیں آتے،

خود کے بت ہیں جن کو توڑنے کے لیے انا پر ضرب لگانی ہوگی،خودی کو بیدار کرنا ہو گا۔۔۔یہ چیزیں محض دماغی کھیل ہیں، ایک چلتے پھرتے سراب کی مانند ہے،

راضی تو اسے کرو جو کن فیکون کا مالک ہے، جو زمانے کی قسم کھاتا ہے،جو دھوپ کی قسم کھاتا ہے،جو رات کی قسم کھاتا ہے، جو فجر کی قسم کھاتا ہے،جو آسمان کی قسم کھاتا ہے، جو ہواؤں کی قسم کھاتا ہے،اور آنے والی قیامت کی قسم کھاتا ہے۔

اس اللہ کو بس دل میں نصب کر لو، ساری دنیا کی آسائشیں پھیکی پڑ جائیں گی۔ہم پھر کیوں لگے ہیں ان بتوں کے پیچھے جن کا پوجنا بالکل بے سود ہے۔