اے خدامیرے ابو سلامت رہیں ۔اے خدامیرے ابو سلامت رہیں ۔۔
میرے ابو نے لی اک بیمہ پالیسی ۔لا کے امی کو دی اک بیمہ پالیسی ۔۔
رہیں تاکہ امن اور حفاظت سے ہم ۔۔۔””
اے خدا میرے ابو سلامت رہیں ۔۔اے خدا میرے ابوسلامت رہیں ۔۔۔
یہ الفاظ ہیں پی ۔ٹی۔ وی کے سنہرے دور میں بے حد مقبول ہو جانے والے اسٹیٹ لائیف انشورینس کے اشتہار کے ۔
یہ الفاظ ہمارے بچپن کی معصوم بازگشت بن کر آج بھی ہمارے لا شعور کا حصہ ہے ۔۔اس اشتہار میں ایک چھوٹی بچی اپنے ابو کی سلامتی کی دعائییں کر رہی ہے ۔۔۔بے حد خوبصورتی سے فلمایا گیا یہ اشتہار اُس زمانے میں رائیج پاکیزہ معاشرتی کلچر کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے ۔۔
تقریبا” چار دہائی قبل بننے والے اشتہارات اور آج کے اشتہارات میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے ۔۔۔۔
1980اور 1990 کی دہائی میں زیاہ تر اشتہارات میں بچوں ۔ان کے والدین ‘ اساتزہ یا دیگر رشتوں پر فلمائے جاتے تھے ۔۔۔۔۔مثلا اس دور میں ایک ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بے حد مقبول ہوا ۔۔اس کے الفاظ کچھ یوں تھے ۔۔۔
ابو آ گئے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
کہا ں ہے میرابرش بناکا
کہاں ہے میری کریم بناکا ۔۔جب تک نہ ہوں گے دونوں بناکا میں بھی یوں ہی روٹھی رہوں گی ۔۔۔
صبح بناکا شام بناکا ۔۔۔
صحت کا پیغام بناکا ۔۔۔
اس پیارے سے اشتہار میں بھی دو بچیاں اپنے والد سے ٹوتھ برش اورٹوتھ پیسٹ نہ لانے کی صورت میں روٹھ جانے کا عندیہ دے رہی ہیں ۔۔۔۔
اتنے پیارے اشتہارات بنائے جاتے تھے جن سے دیکھنے والے بھی محظوظ ہوتے اورکمپنی کی پروڈکٹ بھی بے حد مقبول ہو جاتی تھیں ۔۔۔۔۔
اس دور کے اشتہارات آجکل کی طرح واہیات ناچ گانوں اور غیر ساتر لباس پہنی ماڈلز پر نہی فلمائے جاتے تھے ۔۔۔۔
ایک شربت کے اشتہار کے الفاظ پر توجہ فرمائیں ۔۔۔
جتنا پیو دل نہی بھرتا نورس اتنا اچھا ہے
میں تو چھپا کر رکھتی ہوں پربھیا سب پی جاتا ہے ۔
اک نورس میرے بھیا کی اک نورس میری لانا
بڑے مزے کا شربت نورس مجھ کو ہے جی سے پیارا
بھول نہ جانا پھرپاپا ۔۔۔۔۔۔
زرا غور کریں ان معصول دل کو چھونے والے اچھوتے الفاظ پر ۔۔۔یہ اشتہار اپنے دور کے ٹاپ رینکگ پر تھا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بغیر کسی ماڈل کی خوبصورتی کی غیر ضروری نمائش کے بھی نمبر ون معیار کے اشتہار بنائے جا سکتے ہیں ۔۔۔۔
اسی طرح پی ۔ٹی۔ وی کے “گولڈن ایرا” پرسپر ہٹ ہونے والے چائے کے ایک مقبول عام اشتہار کے الفاظ دیکھیئے ۔۔
چائےچاہیئے ۔۔۔۔
کون سی جناب ؟
لپٹن عمدہ ہے ۔۔۔۔۔
لپٹن پی جیے ۔۔۔۔۔
لپٹن لی جیے ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی ناچ نہ گانا نہ ہی بے ہودہ الفاظ اور ادائیں۔۔سیدھے سادھے دکان دار چچا اور ایک ماڈل پرفلمائے گئے اس اشتہار کے سادہ اور دلکش بول آج بھی زبان زد عام ہیں ۔اور کمپنی بھی مقبول و معروف ہے ۔۔۔
اس زمانے میں ایک ہی نیشنل چینل” پی ٹی وی” کے نام سے موجود تھا ۔اس چینل کے اوقات کار بھی محدود تھے ۔۔۔۔اسے مانیٹر کرنا بھی آسان تھا ۔۔اس کےبعد 90 کی دہائی میں انٹر نیٹ کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی بے شمار پرائییویٹ چینلز کا سیلاب امڈ آیا ۔۔۔ ان پرائیویٹ چینلز کو بھاری فیس لےکر لائیسنس جاری کیےگئے ۔۔۔نام نہاد “پیمرا” کا ادارہ انہیں مانیٹر کرنے کےلیے بھی قائم کیا گیا جس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ۔
جہاں تک آجکل کے اشتہارات کے الفاظ کی بات کی جائے تو بجا طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے الفاظ موجودہ دور کے میڈیا کے اخلاقی زوال کی منہ بولتی تصویر پیش کرتے ہیں ۔۔۔
الفاظ سوچ کے آئیینہ دار ہوتے ہیں ۔۔ کچھ الفاظ اتنے طاقتور اور قوی ہوتے ہیں کہ وہ آپ کی پہچان اور آپ کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ روزمرہ زندگی میں ہم اسکا مشاہدہ بھی کرتے ہیں ۔۔۔بعض اوقات ہم کسی شخصیت کے ظاہری حسن و دلکشی یا کسی خوبی کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔۔اور اس شخصیت کو بہت سراہتے ہیں ۔۔۔۔ پر جب گفتگو شروع ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور مزاج کی شناسائی اس کے الفاظ اور گفتگو بخوبی کرواتے ہیں ۔۔۔۔اکثر ہمیں ابتدائی نقطہ نظر تبدیل کر ناپڑتا ہے ۔۔۔۔اس قدر اہمیت کےحامل ہیں یہ الفاظ کہ یہ بعض اوقات یہ زندگی کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔۔۔۔انہی الفاظ کے مناسب استعمال سے ہم عوام کی زہن سازی کا کام بھیی باآسانی کر سکتے ہیں ۔۔۔ اور انہیں اچھے اخلاق اور اعلٰی تہزیب کا سبق بھی اشتہارات کے زریعے پڑھاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔لیکن معاملہ اس کے بلکل برعکس ہے۔۔ آج کے اشتہارات فہاشی اور عریانی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ ودو میں لگے ہیں ۔۔۔جتنا زیادہ” بولڈ ” اشتہار ہوگا ۔۔۔ اتنی ہی ریٹنگ بڑھے گی اور اتنی ہی زیادہ شہرت اور منافع ملے گا ۔۔۔
حال ہی میں چائے کی ایک مشہور کمپنی نے تو چائے کے اشتہار کو سینما اسکرین کے کسی دوگانے کا مکمل روپ دے کر پیش کیا ۔۔۔اس دوگانے کو مشہور ماڈلز پر فلمایا گیا ۔ رقص و موسیقی اورقیمتی لباس اور مہنگے ترین سیٹ پر فلمائےگئے اس اشتہا کے رقص و موسیقی تو چائے کے اشتہار کے لیئے قطعئی نامناسب اور غیر مطلقہ ہیں ہی ۔۔مگر اس اشتہار کے الفاظ بے انتہاء حیا باختہ اور گھٹیا اور نا قابل قبول ہیں ۔۔ ۔ چائے کی پتی بیچنے کے لیئے آج ان نام نہاد کمپنیوں نے اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو تماشا بنا کر ان کی عظمت اور وقار کو روند ڈالا ۔۔۔یہ بظاہرتو خود کو سیکولر اور خواتین کے حقوق و آزادی کے علمبردار گردانتے ہیں۔۔۔ مگر درحقیقت یہ خود ہی عورت کو مارکیٹ کی ایک “پروڈکٹ ” بنا کر اس کے بلند رتبے اور تقدس کا استحصال کر رہے ہیں ۔۔۔۔
آپ اس اشتہار کے بول کا موازنہ پی ٹی وی کے پرانے لپٹن چائے ” کےاشتیار سے کر کے دیکھ لیں آپ بھی میری طرح یقینا”معیار کی تنزلی دیکھ کر چکرا جائییں گے ۔۔۔۔ ۔
اگر ہم الفاظ کی بات کریں تو آجکل چائے کے ایک “نیو ارائییول ” اشتہار کے الفاظ نے پوری قوم کو بری طرح سے مایوس کیا ۔اس اشتہار میں تھرکتی بل کھاتی اداکارہ ” ماہرہ خان” جن الفاظ کے زریعے چائے کی پیالی پینے کی دعوت دے رہیں وہ قطعئی قابل قبول نہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی پروڈکٹس بیچنے کے لیئے آپ ہماری نوجوان نسل کوکس نوعیت کی تخیلاتتی دنیا میں پہنچانا چاہتےہیں ۔۔کیا آپ کو اپنی پروڈکس کے معیار پر بھروسہ نہی؟ اگر ہے تو پھر آپ کیوں تہزیب اور شائیستگی کے دائیرے کے اندر بنائے گئے اشتہارات کے زریعےاپنی مصنوعات بیچنے سے کتراتے ہیں ۔۔۔۔؟؟
کیا صاف ستھرے بنے اشتہارات کی وجہ کبھی کوئی کمپنی دیوالیہ ہوئی ہے ؟ یا عوام نے کبھی اسے مسترد کیا ؟؟؟؟؟
اس کے علاوہ سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہواجو اشتہارات کے بول اور انداز یکسر تبدیل کر دیا گیا ۔۔۔؟؟؟؟
کیا عوام کی رائے پوچھ کر گلیمرکی چکا چوند سے بھر پور اشتہارات بنائے جاتے ہیں ؟
اس کا جواب نفی میں ہے ۔۔۔کیونکہ عوام نے کبھی فرمائیشی اشتہارات نہیں مانگے ۔۔۔۔بلکہ عوام بے چارے تو وہ سب کچھ دیکھنے پر مجبور ہیں جو یہ میڈیا ہاؤسس انہیں دکھاتے ہیں ۔
اشتہارات کا معیار کارپوریٹ کلچر کی حرص وحوس کی وجہ سے پستی کی گہرائییوں میں گرتا ہی جا رہاہے ۔۔۔۔یہ کمپنیاں ہر ہربہ اسعمال کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہیں ۔۔انہیں معاشرے پر عائیدہونے والے منفی اثرات کی کوئی پرواہ نہی ۔۔۔بس اپنے منافع سے غرض ہے ۔۔
گزشتہ دنوں “گالا بسکٹ “کے اشتہار نے بھی عوام کو شدید ازیت اور مایوسی میں مبتلا کیا ۔۔۔۔۔۔۔ عورت کی نمائیش رقص وموسیقی بے تکی تھیم سے ناقابل قبول حد تک واہیات اس اشتہار کو عوام کے زبر دست احتجاج کے بعد بند کرنا پڑا ۔۔۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ عوام صاف ستھرے اور معیاری اشتہارات دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیمرا بغیر دیکھے ہی تمام اشتہارات کو آن ائییر کر دیتا ہے ۔؟
اگر دیکھ کر کرتے تو پھر عوام کی اکثریت کی رائے اور پیمرا کے قوانین کے مطابق بنے اشتہارات ہی ٹیلی ویژن اسکرین پر دکھا ئی دینے چاہیئے تھے ۔۔
۔” پیمرا ” اگر اپنی شق نمبر 3 نقطہE بھول گیا ہو تو یاد دہانی کے لیئے عرض ہے کہ اس شق کے تحت پیمبرا اس بات کا مجازہے کہ “کوئی بھی نازیبہ اور فحش چیزنشر نہی کی جائےگی “
“پیمرا” جیسے حکومتی ادارے کے زمہ داران کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے نیشنل ٹیوی پر بےہودہ ْ اور فحش اشتہارات نشر کیئے جارہے ہیں ۔۔
موجودہ صورتحال میں عوام بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا یہ سب ملی بھگت کانتیجہ ہے ۔۔۔۔۔؟؟؟
ٹیلی ویژن کے لیئے آج بھی ہر گھر میں فیملی ٹائیم کا کچھ حصہ مخصوس ہے ۔۔۔ٹیلی ویژن کی سلور اسکرین عوام الناس کے خیالات اور جزبات پر بہت گہرےاور دور رس نتائیج مرتب کرتی ہے ۔۔اگر” پیمرا”
اپنی زمہ داریوں کو پوراکرنے سے قاصرہے تو اس نام نہاد ادار ے کو بند کرکے کوئی بہتر فعال اور مظبوط ادارہ قائیم کیا جائے ۔۔تاکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر پاکیزہ ماحول فراہم کیا جا سکے ۔۔۔۔