دنیا کے اکثر ممالک میں عالمگیر وبا کی دوسری لہر کے باعث اقتصادی سماجی سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہیں اور ہر ملک کی کوشش ہے کہ ویکسین کی جلد دستیابی سے معمولات زندگی فوری بحال کیے جائیں لیکن ماہرین کے نزدیک دنیا کو کووڈ۔19کے اثرات سے نجات پانے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ وبائی صورتحال کے باعث دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید دباو کا سامنا ہے اور عالمی اقتصادی اشاریے بھی اس حوالے سے حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔عالمگیر معاشی شرح نمو کی بات کی جائے تو جہاں دنیا کی ترقی یافتہ معیشتوں کو شدید گراوٹ کا سامنا ہے وہاں اقتصادی ماہرین کا ماننا ہے کہ چین رواں برس مثبت شرح نمو کی حامل واحد بڑی معیشت ہو گی۔
چین نے کووڈ۔19کے سنگین اثرات سے موئثر طور پر نمٹنے کے لیے انسداد وبا اور اقتصادی سماجی سرگرمیوں میں ہم آہنگی کا ماڈل اپنایا ہے جبکہ چین کے اقتصادی اعشاریے بھی واضح کرتے ہیں کہ ملک میں معاشی بحالی کی جانب تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔یہ بات قابل زکر ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کی سنگین صورتحال میں چین، دنیا میں مختلف مصنوعات کی فراہمی کا ایک”گلوبل سپلائر “رہا ہے ، چین نے وبا پر قابو پاتے ہوئے ایک ایسے وقت میں اپنے کارخانے اور صنعتیں کھول دیں جب باقی دنیا میں کاروبار بند ہو چکا تھا اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ماسک ،وینٹی لیٹرز سمیت وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے درکار دیگر لازمی سامان کی فراہمی میں مدد ملی۔
چین کی معاشی سرگرمیوں میں مثبت پیش رفت کی بات کی جائے تو سرمایہ کاری ،صنعتکاری اور کھپت جیسے تینوں اہم شعبہ جات میں منفی شرح نمو اب مثبت اشاریوں میں تبدیل ہو چکی ہے جبکہ برآمدات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔چین کی مجموعی برآمداتنومبر تک دو سو اڑسٹھ ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں جس میں گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں اکیس فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ تو وبا کے باعث دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں مصنوعات کی عدم پیداوار ہے جبکہ دوسری وجہ عالمی معیشت میں کمزوری کا رحجان ہے ،اسی باعث چین کو بے تحاشا “ایکسپورٹ آرڈرز” موصول ہو رہے ہیں کیونکہ کووڈ۔19سے شدید متاثرہ ممالک میں فی الحال ان آرڈرز کو پورا کرنے کی سکت نہیں ہے۔عالمی سطح پر چینی ساختہ مصنوعات کی طلب میں نمایاں اضافے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ مالیاتی لین دین اور تجارت میں “چینی کرنسی یوان” پر انحصار بڑھا ہے۔حالیہ عرصے میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی یوان زیادہ مستحکم رہی ہے جبکہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ چین۔امریکہ تجارتی اعتبار سے چین کے لیے امریکی معیشت کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں مثلاً یورپی یونین اور آسیان کے ساتھ چین کی تجارتی شراکت داری فروغ پا رہی ہے۔رواں برس 2020کے پہلے گیارہ ماہ میں چین اور امریکہ کے درمیان مجموعی تجارتی حجم 3.65ٹریلین یوان رہا ہے ،اس طرح تجارت کے لحاظ سے امریکہ چین کا تیسرا بڑا شراکت دار رہا ہے جبکہ آسیان 4.24ٹریلین یوان کے ساتھ پہلے اور یورپی یونین4.05ٹریلین یوان کے ساتھ دوسرا نمبر پر ہے۔چین کے ساتھ تجارتی شراکت کی فہرست میں جاپان چوتھے اور جنوبی کوریا پانچویں نمبر پر ہے۔
اگر چینی مصنوعات کی عالمی سطح پر سپلائی کی بات کی جائے تو رواں سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران چین نے 989ارب یوان کی ٹیکسٹائل مصنوعات دنیا کو برآمد کی ہیں۔اس فہرست میں ماسک بھی شامل ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی کارخانے کس طرح دنیا میں انسداد وبا میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی عرصے کے دوران چین نے دنیا کو 771ارب یوان کے موبائل فون برآمد کیے ہیں۔اس لحاظ سے یہ امر قابل زکر ہے کہ امریکہ کی جانب سے چینی موبائل فون کمپنی ہواوے ، جس کا شمار دنیا میں صف اول کی موبائل فون کمپنیوں میں کیا جاتا ہے ، پر پابندیوں کے باوجود چین کی موبائل فون صنعت اپنی طاقت اور اہمیت دکھا رہی ہے۔اسی طرح چین کی جانب سے دنیا کو فراہم کیے جانے والے آٹو میٹک ڈیٹا پروسیسرز کی مجموعی مالیت 1.3ارب یوان رہی ہے جو چینی مصنوعات میں جدت اور ویلیو ایڈیشن کا بھرپور مظہر ہے۔چین میں ایک اور صنعت جس نے رواں برس مضبوط ترقی کی ہے وہ فرنیچر کی صنعت رہی ہے اور چین نے دنیا کو 365ارب یوان کا فرنیچر برآمد کیا ہے۔برآمدات سے ہٹ کر درآمدات کے شعبے میں بھی چین دنیا کی مدد کر رہا ہے اور عالمی معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کووڈ۔19کی کٹھن صورتحال میں چین کی نمایاں عالمی تجارت نہ صرف چینی معیشت کے لیے سودمند ہے بلکہ عالمی اقتصادی بحالی کے عمل میں بھی دوررس اہمیت کی حامل ہے۔چین نے ہمیشہ دیرپا اہداف کو مد نظر رکھا ہے اور چینی دانش کی روشنی میں دیگر تمام ممالک کے لیے بھی ترقیاتی امکانات سامنے لائے ہیں۔عالمی اقتصادی بحالی اگرچہ فوری طور پر تو ممکن نہیں مگر چین کے مثبت اقتصادی اشاریوں سے دنیا کو یہ اعتماد ضرور ملا ہے کہ کھلے پن ،کثیر الجہتی اور اشتراکی ترقی کے وژن کی روشنی میں کووڈ۔19کے اثرات پر بہتر پالیسی سازی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔