یہ ہی چراغ جلینگے تو روشنی ہوگی! (اساتذہ کے نام)

کورونا نے دنیا کو بدترین معاشی بدحالی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ اہل نظر کے پاس اسکی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، سب سے پہلے دھیان اس بات پر جاتاہے کہ حکمت عملی کی خامیوں کی بدولت ایسا ہوا، لیکن حکمتِ عملی ترتیب دینے والے اس کرہ ارض کے انسان ہیں اور یہ صرف وہی دیکھ سکتے ہیں، سوچ سکتے ہیں اور کرسکتے ہیں جہاں تک انہیں رسائی دی جاتی ہے۔آفتیں ہمیشہ سے آتی رہی ہیں اور یہ بھی لکھنے میں کوئی تردد نہیں کہ قدرت اپنے دائرہ اختیار میں محدود عمل دخل کی اجازت دیتی ہے، جب کبھی زیادہ معاملات تک رسائی کی کوششیں کی گئیں تو آفتوں کا نزول ہونا شروع ہوگیا۔اس طرح سے دنیا کا ہر خطہ ان آفتوں سے خوب واقف رہا  جس کے پیش نظر ترقی کرتی دنیا نے مصیبتوں اور آفتوں پر تحقیقات کیں اور نمٹنے کی حتی الامکان حکمت عملیاں مرتب دینا شروع کردیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان قدرتی آفات کو روکا نہیں جاسکتا سوائے اسکے کے اس کے وارد ہونے کے وقت کا کسی حد تک تعین کرلیا جائے یا پھر رونما ہوجانے کی صورت میں جلد از جلد کم سے کم نقصان کیلئے کوشش کی جائے۔ بچاؤ یا نمٹنے کی حکمت عملی کا براہ راست تعلق ملکوں کی ترقی سے ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک جن کی تعداد بہت کم ہے، نے بہترین تکنیکی محارت اورآلات(مشینیں)سنگین حالات میں استعمال کرنے کیلئے ایجاد کرلیں ہیں،جبکہ ترقی پذیر ممالک ابھی ترقی یافتہ ہونے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں جہاں آفت آجائے تو کچھ گنوا دیتے ہیں، کچھ بچا لیتے ہیں۔اسطرح دنیا کی آدھی آبادی اوسط ترقی پذیر ہے جبکہ باقی آدھی آبادی جسے عام فہم اصطلاح میں تیسری دنیا کہا جاتا ہے،سے زیادہ جانا جاتا ہے، یہ وہ آبادی ہے جو ابھی تک آفتوں کی زد میں آکر مرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتی اور ملبے کے ڈھیر سے تباہ شدہ سامان اورمسخ شدہ لاشیں نکالنے کیلئے بھی دوسروں کے رحم و کر م پر ہوتی ہے۔

کورونا کے باعث سال رواں (۰۲۰۲) کو بہت سخت اور کٹھن سال کہا جا رہاہے، کیونکہ ابھی کوئی آگاہی نہیں کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا،یہ تو بتادیا گیا ہے کہ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے بد تر ہوگا اسی تناظر میں ڈر ہے کہ کہیں آنے والا سال ۰۲۰۲ کو بھلادینے والا نا ہو(خاکم بدہن)۔ وقت گزر رہا ہے سرد یوں کے موسم سے قبل ارباب اختیار اس بات کا اندیشہ ظاہرچکے ہیں کہ موسم سرما میں کورونا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے بد قسمتی سے اب ایسا ہورہا ہے۔آج کورونا کے وار بھرپور طریقے سے پورے پاکستان میں جاری و ساری ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ابھی تک اس وباء کو وباء ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ جیسا کہ کچھ حکومتی حکمت عملیوں اور باقی قدرت کے رحم کرنے کی وجہ سے ہم اس وباء کے پہلے دور سے کسی حد تک سکون سے گزر گئے لیکن اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ ابھی ہمیں کورونا کیساتھ رہنا ہے جسکے لئے ماسک پہننا، سماجی فاصلہ رکھنا اور بار بار ہاتھ دھونا لازمی قرار پایا۔ ان ہدایات کو عمومی طور پر ہوا میں اڑا یا جاتا رہا۔ کورونا کے پہلے دور میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کروادیا گیا گوکہ یہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس بات کو خاطر میں نہیں رکھا گیا کہ ہمارے ملک کی ایک اندازے کیمطابق تقریباً ۵۷ فیصد آبادی نجی تعلیمی اداروں (چھوٹے، درمیانے اور بڑے سب ملا کر)میں تعلیم حاصل کرتی ہے جو اساتذہ کے روزگار کا بھی ایک باقاعدہ ذریعہ ہے(بعض جگہوں پر تو باقاعدہ کروبار کی طرز پر ہی تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں) اس کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے والے اساتذہ سرکار سے تنخواہ لیتے ہیں جس کے رکنے کا یا کم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ایک عام رائے کیمطابق یہ وہ اساتذہ ہیں جو باآسانی کہیں اور بھی اپنی معاشی ضروریات کیلئے برسر روزگار ہوتے ہیں۔یہاں یہ وضاحت بھی کرتے چلیں، بہت ممکن ہے سرکاری اسکولوں کی عمارتیں اور ان میں کام کرنے والوں (بشمول اساتذہ)کی تعداد نجی اسکولوں کی عمارتوں اور ان میں کام کرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔

رواں سال اپنے آغاز سے ہی بین الاقوامی معیشت کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا لیکن دو وقت کی روٹی کمانے اور اپنے بچوں کی بہت ہی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورے کرنے والے اور مستقبل کے معماروں کی تعمیر و تشکیل کرنے والے حکومتوں کی نظر سے محروم رہے ہیں جی ہاں ایسے انگنت سفید پوش اساتذہ جوتقریباً گزشتہ دس ماہ سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بقاء کیلئے جنگی بنیادوں پر برسر پیکا رہیں۔ یوں تو ہم سب ہی اس دور میں کسی نا کسی قسم کی مشکل سے دوچار ہیں لیکن اساتذہ کا وہ مقام ہے جو ملکوں اور قوموں کے مستقبل کے معماروں کو تیار کرتے ہیں، یوں سمجھئے کہ آج دنیا میں موجود تقریباً ہر سہولت کے پیچھے ان اساتذہ کا ہی ہاتھ ہے، یہ ان ہی کا کمال ظرف ہوتا ہے کہ وہ بلا تفریق بچے کو پرکھتے ہیں اور اسے اسکے اندر موجود قابلیت سے آگاہ کرتے ہیں، یہ اساتذہ کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ دنیا کہ کسی بھی بڑے سے بڑے مفکر، سائنسدان، فلاسفر غرض یہ کہ ہر نامی گرامی قابل قدر شخصیت کو ایک استاد نے ہی تیار دیا ہوتا ہے۔

ہمارے ایک عزیز (ویسے تو ہر دل عزیز ہیں)سر محمد راحیل جوکہ تقریباً اپنی اعلی تعلیم مکمل کرنے کیساتھ ساتھ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے اور گزشتہ تقریباً دس بارہ سال سے اس پیغمبرانہ پیشے سے وابسطہ ہیں، یہ ان چند افراد میں سے ایک ہیں جو علم کی ترویج کو حقیقی معنوں میں عین عبادت کے مترادف سمجھتے ہیں اورو علم کی روشنی کی قندیل لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، اس بات کی گواہی یہ ہے کہ ہم سے اکثر ملاقاتوں کے دوران بھی انکے شاگردوں کے فون آتے ہیں اور یہ نجی محفل میں ہونے والی گفتگو ترک کر کے فون پر آنے والے طالب علم کا مسلۂ حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ سر محمد راحیل کراچی کے ایک نامی گرامی تعلیمی ادارے میں بطور وائس پرنسپل وابسطہ ہیں جہاں بہت کم وقت میں اپنی دیانت اور محنت سے اپنا مقام بنایا۔ان سے ہماری گزشتہ دنوں ملاقات ہوئی تو سر راحیل نے برملا بہت غم و غصہ کا اظہار کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے سارے کاروبار جو ں کے توں چل رہے ہیں، تقریبات اپنے شایہ شان چل رہی ہیں (جن میں گزشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والی شادی بھی زیر بحث آئی پھر کراچی میں منعقد ہونے والی ایک منگنی کی تقریب اور سب سے بڑھ کر سیاسی جلسے)۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی ادارے کیوں بند کردئیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سر راحیل نے اپنے پیشے سے وابسطہ لوگوں کے مسائل سے آگا ہ کیا اور اساتذہ گزشتہ دس ماہ سے کن کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اس کا شائد کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے(مجھے اس بات کی شدت کا اندازہ اس بات سے ہوا کہ کچھ اساتذہ کی حالات زار بیان کرتے ہوئے سر راحیل کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی تھی)۔ ہمارے پاس بہت ساری توجیحات تھیں جو میں ہمیشہ سے دیا کرتا رہا ہوں لیکن اب کی بار میں نے کچھ بھی نہیں کہا، کیوں کے تکلیف کی شدت کا صحیح اندازہ تکلیف زدہ سے بہتر کوئی نہیں لگا سکتا۔

سب سے پہلے تو حکومت کو تمام اساتذہ کا بذریعہ تعلیمی اداروں کے اندارج (ریجسٹریشن) کرنا چاہئے اسکے بعد ایسے حالات میں تمام تعلیمی اداروں کیساتھ بیٹھ کر کوئی مربوط حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے کہ جس سے اساتذہ کی فلاح و بہبود اور سب سے بڑھ کر انکی عزت نفس مجروح ہونے سے محفوظ رہ سکے۔ معاشرتی اعتبار سے والدین پر بھی یہ لازم ہے کہ اس بات کو سمجھیں کہ جس طرح انکے گھر کا چولا جلانے کیلئے وسائل کی ضرورت ہے بلکل اسی طرح اساتذہ کو بھی درپیش ہے وہ اگر بچوں کی پوری فیس نہیں دے سکتے تو تعلیمی ادارے کی انتظامیہ سے بات کریں اور جتنا حصہ فیس کا سہولت سے دے سکتے ہیں ادا کریں، سلسلہ تو قائم رکھیں۔اس وقت جڑے رہنے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کو چھوڑ نے کی ایک دوسرے کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ ہم بارہا اپنے مضامین میں یہ جملہ لکھتا رہا ہوں کہ کورونا انسانیت کو زندہ کرنے کیلئے اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے ایسے میں جن لوگوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھا ایک دوسرے سے نبہاتے رہے یقینا اللہ ان سب کیساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں گے۔ بیشک موت برحق ہے۔

آخر میں لازمی سمجھتا ہوں کہ ایک قیمتی بات آپ لوگوں تک پہنچاؤں اور وہ یہ کہ جب کبھی بھی کسی حوالے میں بھی اساتذہ کا ذکر آتا ہے تو ہمیں قابل احترام اشفاق احمدؒ صاحب کا وہ جملہ کسی ہزار وولٹ کے بلب کی طرح دماغ میں جل جاتا ہے اور وہ تاریخی جملہ جو اٹلی کی عدالت میں موجودمنصف (جج) کو پتہ چلنے پر کہ اس کمرے میں ایک استاد (خود اشفاق احمدؒ) موجود ہے تو وہ منصف یہ کہتے ہوئے کھڑا ہوا تھا کہ (Teacher in the Court)استاد کمرہ عدالت میں۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ استاد کس مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ قران کریم میں اللہ رب العز ت فرماتے ہیں کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو قران سیکھے اوردوسروں کو سیکھائے۔حضرت محمد ﷺ جن کے ذریعے سے اللہ تعالی نے ساری دنیا کو روشن کرایا اور آپ ﷺ استاد اعظم کے مرتبے پر فائز ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے کسی نے ایک لفظ سیکھایا تو اس نے مجھے تمام زندگی کیلئے اپنا غلام بنالیا۔

جی ہاں اساتذہ ہی وہ حقیقی چراغ ہیں جو جلینگے تو روشنی کے استعارے بنیں گے تو آئیں ہر سطح پر اس آگاہی کو عام کریں اور عہد کریں کہ اساتذہ کا خصوصی خیال رکھینگے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔