اذیّتوں کی ترسیل نہ کریں

سماجی ذرائع ابلاغ (Social media) فی زمانہ ابلاغ کا بہت اہم اور مؤثر ذریعہ ہے۔ سماجی ابلاغ سے عام طور سے ٹوئٹر، فیس بک، واٹس ایپ، ٹک ٹاک، بلاگز وغیرہ لیے جاتے ہیں۔ ان ذرائع کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ ماضی قریب کے دو واقعات سے لگایا جاسکتاہے۔ 

عرب دنیا میں پیدا ہونے والی بیداری کی لہر میں سب سے اہم کردار مذکورہ سماجی ابلاغ کے ذرائع کا ہی تھا۔ اسی طرح ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی ناکامی میں سب سے اہم کردار سماجی ذرائع ابلاغ کا تھا کیوں کہ تما م ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز پر فوج کا قبضہ تھااور ایردوان ملک سےباہر تھے۔ انہیں جب بغاوت کی اطلاع ملی تو انہوں نے سماجی ذرائع ابلاغ پر ویڈیو پیغام میں عوام سے بغاوت کے خلاف نکلنے کی اپیل کی۔ ان کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عوام فوجی بغاوت کو کچلنے کے لیے گھروں سے نکل آئے۔

ان واقعات سے سماجی ذرائع ابلاغ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہی ذرائع ابلاغ معاشرے میں انارکی، انتشار اورغلط اطلاعات کے فروغ کا بھی باعث بنتے ہیں۔ فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ پر لوگ ایک دوسرے کی پگڑی سر عام اچھالتے اور ایک دوسرے کے پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جس کا کام صرف یہی ہے کہ کسی بھی قسم کی ویڈیو، آڈیو یا خبر کو بغیر تحقیق یا اس کی حساسیت کا خیال کیے بغیر اس کو فرض عین سمجھتے ہوئے دوسروں کا پہچانے کا کام کرتا ہے۔ یہسوچے بغیر کہ اس کے اثرات کیا نکلیں گے۔

یہ ساری باتیں اس لیے کرنی پڑی ہیں کہ ہمارے ایک کرم فرما نے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو ہمیں بھیجی۔ جب وہ ویڈیو میں نے دیکھی تو میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ ویڈیو ملک کے کس شہر اور کس علاقے کی ہے یہ معلوم نہیں لیکن بہت اذیّت ناک ویڈیو ہے۔ویڈیو لفٹ میں لگے کلوز سرکٹ کیمرے سے بنی ہوئی ہے۔ویڈیومیں ایک لفٹ میں بچے کے پھنس کر کچلنے کا منظر محفوظ ہے۔ ویڈیو کی ابتدا سے اندازہ نہیں ہوتاکہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ پہلے دکھایا گیا کہ 7 یا 8 سال کے دو بچے اور ایک بچی لفٹ میں داخل ہوئے۔انہوں نے لفٹ کے دروازے کے بعد اندر لگی حفاظتی جالی کو بھی بند کیا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی مطلوبہ منزل کا بٹن دبایا۔ ساتھ ہی انہوں نے شرارت کے طور پر اوپر کی منزل کا بٹن بھی دبایا ۔ جب ان کی منزل آگئی تو دو بچے جالی ہٹا کر، دروازہ کھول کر باہر نکل گئے جب کہ ایک بچہ لفٹ سے نکل کر حفاظتی جالی کو بند کرنے لگا اس دوران لفٹ کا درواہ بند ہوگیا اور وہ بچہ لفٹ کے دروازے اور جالی کے درمیان پھنس گیا اور اس کے بعد جو کچھ میں نے دیکھا وہ میں بیان نہیں کرسکتا۔

وہ ویڈیو دیکھنے کے بعد میں ایک شاک کی حالت میں ہوں۔ میری نگاہوں میں بار بار اس بچے کی معصومیت، اس کا یہ اعتماد کہ لفٹ مجھےاوپر پہنچا دے گی اور میں نکل جائوں گا اورپھرآخری لمحات میں اس کے اذیّت سے ہاتھ پیر چلانے اور تڑپنے کے مناظر گھوم رہے ہیں۔ میں دفتر میں کام نہیں کرسکا۔میری طبیت مکدّر ہوگئی۔ بمشکل تمام میں گھر پہنچا۔ رات کو سونے کے لیٹا تو نیند نہیں آسکی۔ جب بھی آنکھیں بند کرتا ہوں وہ اذیّت ناک منظر سامنے آجاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسی اذیّت ناک اور خوف ناک ویڈیو باہر کیسے آئی؟ اگر یہ ویڈیو کسی ضرورت کے تحت نکالی گئی تو اس کو پھیلایا کیوں گیا؟ سب سے بڑی بات یہ کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہر ویڈیو، ہر میسج، ہر خبر پھیلانے کی نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی کسی کے قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے۔ کبھی کوئی کسی کے ساتھ زیادتی اور ہراسانی کی ویڈیوز کو پھیلادیتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ دیکھنے والے پر اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ 

اس حوالےسے ہمیں باشعور ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ کوئی بھی چیز خبر یا پیغام سوشل میڈیا پر ڈالنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلیں۔ کوئی نامناسب تصویر یا ویڈیو پھیلانے کی بجائے اس کو ڈیلیٹ کردیں۔ اگر فیس بک پر آپ کو ایسا کوئی پیغام یا ویڈیو ملے تو اس کو آگے بڑھانے سے بہتر ہے کہ اس کو مخفی(Hide) کر دیں۔اگر ہم کسی کو خوشی نہیں دے سکتے، کسی کے ہونٹوں کو مسکان نہیں بخش سکتے تو کم از کم اذیّتوں کی ترسیل تو نہ کریں۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...