آسمان کیسے رنگ بدلتا ہے ؟ اسی طرح درختوں کے بھی کیسے کیسے روپ نظرآتے ہیں ؟ ایک دم خالی پتے ، نہ پھول اور کبھی پھول ہی پھول ، کبھی اچانک ناریل کے درخت پیلے پیلے ان گنت خوشوں اور پتوں کے ساتھ عجیب حسین نظارہ پیش کرتے ہیں۔ کبھی خزاں، کبھی بہار کے رنگ انسانی جذبات کو بھی غورو فکر کا انوکھا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ اتنے رنگ اتنے روپ واقعی خدا ہی کی قدرت ہے اس طرح بچپن تو نا جانے کیسے گزر جاتا ہے بالغ ہو کر احساس ہوتا ہے کہ ہماری اصلی اور حقیقی کامیابی کیا ہے ؟ بچپن میں اصل کامیابی کھلونے جمع کر نا نہیں ہوتابلکہ تعلیمی میدان میں بھی آگے بڑھنا ہو تا ہے ۔ پھر شادی ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ بہترین شریک حیات کا ملنا اصل کامیابی ہے ۔ پھر روزگار کے معاملات سے دل میں یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو کاروبار کے وسیع ہونے یا ملازمت اچھی ملازمت اور پھر اس میں بھی مسلسل پرموشن سے ہے ۔ وقت چلتا رہتا ہے سوچیں بدلتی ہیں اور جوانی بھی ڈھلنے لگتی ہے جوانی ڈھلنے پر نقطہ نظر تبدیل ہو جاتا ہے کہ اصل کامیابی تو با صلاحیت اولاد اور بڑے سے گھر اور بہترین گاڑی ہونے سے ہے ۔ اگر چہ سب کو یہ چیزیں میسر نہیں ہوتیں پھر بھی اس کو کامیابی سمجھا جاتا ہے اور ہونے کی چاہ اور حسرت ہوتی ہے ۔ پھر انسان کے نزدیک اصل کامیابی کا پیمانہ بیماریوں سے بچ کر جسمانی و دماغی تندرستی کا برقرا ر رہنا قرار پاتا ہے اور واقعی بیمار اور مجبور بے بس لوگوں کو دیکھ کر ان کی بے بسی دیکھ کر رب سے یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ چلتے پھرتے رکھنا کبھی کسی کا محتاج نہ کرنا ۔ ہزاروں لوگ الحمد للہ بچے ہی رہتے ہیں ، شکر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ کچھ دوسروں کی خدمتوں میں بھی لگے ہو ئے ہیں اور خود صحت مند ہونے کا شکر بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔ بیماریوں سے ڈرتے ہیں ، بیماریوں سے عبرت لیتے ہیں لیکن پھر بھی مناظر بدلتے رہتے ہیں ، انسان خسارے میں جاتا رہتا ہے ۔ نظر کی کمزوری، معدے کی کمزوری ، یاد داشت کی کمزوری، جسمانی اور ذہنی کمزوریاں ملکر تو بندے کو کافی لاغر بنادیتی ہیں ۔ سب کچھ سیکھنے پڑھنے کے بعد بھی بندہ کورا ہو جاتا ہے ۔ دنیا ہی کی حسرت اور مال کی کثرت کی فکر ہی لاحق ہوتی ہے ۔ سوائے چند متقی لوگوں کے جنہیں تو صرف اللہ ہی کی دھن لگی ہوتی ہے باقی دنیا میں ہی اتنا گھرے ہوتے ہیں کہ دنیا سے چمٹے رہتے ہیں یہاںتک کہ موت کا فرشتہ انسان کو لینے آجا تا ہے تواس پر اصل بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ کامیابی کا تمام تر دنیاوی تصور درحقیقت بہت بڑا دھوکا تھا ۔ اصل کامیابی کا تصور تو اللہ کی نازل کردہ کتاب میں درج ہے ۔۔۔۔ جس کے مطالعے کا سنجیدگی سے کبھی وقت ہی نہ مل سکا ۔!!!
رہا نا انسان نرا نادان! جو خالقِ حقیقی اور اس کی نعمتوں کا شکر گزار ہی نہ بن پایا دنیا ہی میں گم ہو گیا اور یوں زندگانی کا وقت ، قیمتی وقت گزار دیا اب کیا ہاتھ آیا؟ صرف حسرت ! کاش! کاش میں نے اس قائم رہنے والی آخرت کیلئے کچھ جمع کیا ہوتا؟ کاش میں نے شیطان کے چیلوں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ، کاش میں نے صدقہ خیرات کئے ہوتے او ر کاش میں مٹی ہوتا ! تا کہ مجھ سے سوال جواب نہ ہوتے ۔ کاش میں نے رسولؐ کی شریعت پر عمل کیا ہوتا ! یوم آخرت کو مانا ہوتااور اس کی تیاری اپنی زندگی میں دل سے کی ہوتی ۔ میں تو دنیا ہی میں گم ہو گیا تھابہک گیا تھا واپسی بھول گیا تھا اگرچہ آئے دن لوگوں کو چرند پرند کو واپس جاتے دیکھا لیکن میں نے صحیح معنوں میں ان سے بھی درس واپسی اور عبرت نہ لیا ۔ اب کیا کروں کیسے کامیاب ہوں ؟ اصل کامیابی تو وہی اللہ کی نازل کردہ کتاب پر یقین ، کائنات پر شعوری طور پر غورو فکر ، تفکر تدبر، عبادات تذکیر ، اخلاقیات اور صالحات کو پانے کا احساس اور ادراک تھا ۔ بندہ اس وقت جب اپنی آنکھوں سے اگلے جہاں کو دیکھے گا تو خواہش ظاہر کرے گا کہ اے رب! مجھے تھوڑی دیر کیلئے ہی دنیا میں واپس بھیج دے کہ میںاپنے لئے کارِ خیر کر دو، صدقہ خیرات ادا کردوں مگر نہیں اب مہلت عمل تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہے ۔ گویا دنیا کی نعمتوں اور دیگر چیزوں کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالنا کہ یہ ہمارے کھانے کی ہے۔ یہ ہمارے رہنے کی ہے یہ ہماری خدمت کیلئے ہے ۔
یہ تو ہماری بیوقوفی ہے ان کو دیکھ کر ہی تو اللہ عزو جل کو پہناننا ہے اور پھر اس کے احکامات کو سر تسلیم خم کرکے قبول کرنا اور اس پر عمل کی دعائیں مانگتے ہوئے عمل کی پوری کوشش کرنا ، دنیا میں صرف ایسے رہنا جیسے مسافر ہو اور ہر وقت ہر دم واپسی کی تیاری رکھنا اور اسی کی کوشش کرنا کہ حدود اللہ کی خلاف ورزی نہ ہو بلکہ برائی سے بچنے اور عمل صالحہ کرنے کی مسلسل کوشش مرتے دم تک کرتے رہنا ہی دراصل اصلی کامیابی ہے ورنہ ناکامی۔
ظاہر ہے یہی اختیار دے کر ہی تو اللہ نے دنیا کو امتحان گاہ بنا دیا ہر کسی کا پرچہ مختلف ، وقت مختلف ، حالات مختلف ، کہانیاں اور مسائل مختلف مگر حل کرنے کا طریقہ سلیقہ اپنی عقل سلیم سے سمجھنے اور شعوری طور پر عمل کرنے کیلئے اس کی اپنی زندگانی کا وقت دے دیا ۔ اب اسے اپنی ہی زندگی میں خود حل کرو اور قیامت کے دن اللہ تمہیں اس کا نتیجہ بتائے گا ۔جیسی تیاری ہو گی ویسا ہی تو نتیجہ ہو گا۔ تو پھر اصل کامیابی ہی تو ہمارا مقصدِ حیات ہونا چاہئے ۔ کہتے ہیں نا کہ کتاب زندگانی ہی دراصل کتا بِ الٰہی “قرآن” ہمارا سلیبس، آنحضرتﷺ ہمارے معلم، شریعت ہمارا پریکٹیکل اور باری تعالیٰ ، خالق دو جہاں ہمارا ممتحن ہے ۔ ہماری زندگانی کادورانیہ ہمارا وقت امتحان ہے ۔ ہمیں اصل کامیابی چاہئے تو ہمیں تمام شرا ئط پربخوبی عمل پیرا ہونا ہے ۔ اے ہمارے رب ہمیں دونوں جہاں میں کامیاب فرما ۔ یہی دعا ہے یہی تمنا۔ آمین