غیر معمولی چوکسی،آگہی اور توجہ کے ذریعہ ایک معمولی زندگی کو غیر معمولی بنایا جا سکتا ہے۔تدریسی فرائض کی بہترانجام دہی کے لیے اساتذہ کا ذہنی رویوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔دباؤ کے باعث اساتذہ منفی رویوں کا اظہارکرتے ہیں ۔دباؤ سے اساتذہ کی صحت تباہ ہونے کے علاوہ ان کے تدریسی معیارمیں بھی گراوٹ واقع ہوتی ہے جس کے مضر اثرات طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں پربھی مرتب ہوتے ہیں۔اکثر دباؤ کا منبع اساتذہ کی اپنی ذات ہی ہوتی ہے۔ ابترگھریلوحالات، ہمت و حوصلے کو پست کردینے والے واقعات ، فرائض کی ادائیگی میں بے قاعدگی،تدریسی افعال کی غیر مناسب تنظیم و ترتیب ، خود اعتمادی کا فقدان،تدریس عمل میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں سے اساتذہ کا ہم آہنگ نہ ہونا دباؤ کا باعث ہوتا ہے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے اساتذہ ہر قسم کے دباؤ کو یقینا نہیں نکال سکتے ہیں لیکن اپنی فکر و سوچ پر قابو پاتے ہوئے دباؤ کے اثرات سے خود کو اور اپنی تدریسی صلاحیتوں کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔اساتذہ اپنے ذہن پر قابوکے زریعے ہر دباؤ کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک آدمی اپنے ذہن پر فتح حاصل نہیں کر لیتا ہے تب تک دباؤ کے حملے اس کی جذباتی اور نفسیاتی کارکردگی میں رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ پیشہ وارنہ زندگی میں دباؤ پرور حالات و واقعات سے اساتذہ کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ لائقِ ستائش ہیں وہ اساتذہ جو ہمت و حوصلے سے دباؤ پرور حالات کا بہتر و مثبت نظریات کے زریعے جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہیں اور حالات کو اعتدال کی طر ف گامزن کرتے ہیں۔دباؤ سے مزاحمت کر تے ہوئے اساتذہ اگر ناکام بھی ہوجائیں تب بھی وہ کم از کم دباؤ کے نتائج کی سنگینی کو کم کرنے میں ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اساتذہ میں دباؤ پیدا کرنے والے عوامل
دباؤ کی تشخیص اور اس سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اساتذہ کو دباؤ کے عمومی وجوہات کا علم ضروری ہوتاہے۔ اپنا وقت ،توانائی اور فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے دباؤپرور حالات کی آگہی کے زریعے اساتذہ دباؤ سے گلوخلاصی حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ متبادل حالات اور زندگی کے لیے مہلک بننے والے ہر قسم کے دباؤ پر قابو پانے کی وہ حکمت عملیاں وضع کر سکتے ہیں۔ اساتذہ میں دباؤ پیدا کرنے والے واقعات اور حالات میں اکثر فرق پایا جا تا ہے۔ اساتذہ میں دباؤ پیدا کرنے والی چند وجوہات کو جو جسمانی و ذہنی صحت کے مسائل کا موجب بنتی ہیں ذیل میں درج کیا گیا ہے۔
(1) اساتذہ پر جب حد سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جاتاہے اور فرائض کی تکمیل کے لیے بہت کم وقت فراہم کیا جاتا ہے تو وہ ذمہ داریوں کی بروقت عدم تکمیل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(2) تعریف و توصیف ہر انسان کے لیے محرکہ کا باعث ہوتی ہے اور ہر انسان اپنے کام کی انجام دہی پر تعریف کی تمنا کرتا ہے۔ جب اساتذہ کی خدمات کو نظرانداز کردیاجاتا ہے اور فرائض کی ادائیگی پر ان کی ستائش نہیں کی جاتی ہے تب دباؤ کا زہر ان میں سرایت کر جاتا ہے۔
(3) تدریسی مہارتوں کے استعمال میں ناکامی اور تند و ابتر رویے کے حامل طلبہ کا سامنا کرنے میں اعتماد کا فقدان اساتذہ کو دباؤ سے دوچار کردیتا ہے۔
(4) اسکول انتظامیہ و اربا ب مجاز کا معاندانہ رویہ ،ضروری تعلیمی ماحول و اشیاء کی عدم موجودگی، عہدیداران کی جانب سے حقیقت سے بعید ٹارگٹس (اہداف)کا تعین،استاذ کی زندگی میں بے قاعدگی و ترتیب و تنظیم کے فقدان سے دباؤ کی لہریں سر اٹھانے لگتی ہیں۔
(5) ناگفتہ بہ گھریلو حالات،ساتھی اساتذہ سے تال میل میں ناکامی،جسمانی ہیت کی وجہ سے احساس کمتری،تفویض کردہ فرائض کی تکمیل میں حائل حالات پر قابوپانے میں ناکامی اور غیر منظم طریقہ تدریس اساتذہ کو دباؤ کا شکار کر دیتا ہے۔
(6)کمرۂِ جماعت کے حالات کو قابو کرنے میں ناکامی ،طلبہ کا منفی ردعمل اور اولیائے طلبہ کا غیر شعوری ردعمل بھی اساتذہ کے لیے دباؤ کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
(7) خرابی صحت کی وجہ سے فرائض کی انجام دہی میں ناکامی، کمزور قوت ارادی اور مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کا نہ پایاجانابھی اساتذ میں دباؤ کا باعث ہوتا ہے۔
مذکورہ با لا عوامل کواساتذہ میں دباؤ پیدا کرنے والے عوامل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔شعوری یا غیر شعوری طور پرمذکورہ بالا عوامل اساتذہ میں اندرونی اور بیرونی دباؤ کے محرک ہوتے ہیں جو ذہن و جسم پر دباؤ پرور ردعمل کے زریعے خراب اثرات مرتب کر تے ہیں۔اندرونی طورپرآزردگی پیدا کرنے والے عناصر دماغ سے جسم کے مختلف حصوں تک حرکی محرکہ(Sensory Stimuli) کی شکل میں منتقل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دباؤ سے متعلق مختلف بیماریاںمسلسل سردرد،اختلاج قلب ،عضلاتی کمزوری،معدے کی تزابیت کے مسائل، احساس غیر صحتمندی،سینے کی تکلیف، منہ کا خشک ہوجانا،کسی وجہ کے بغیر بہت زیادہ پسینے کا اخراج ،چکر آنا، توانائی کا سلب ہونا وغیرہ پیدا ہوتی ہیں۔بیرونی دباؤ کی وجہ سے اساتذہ سے غیر پسندیدہ برتاؤ کا اظہار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں کی نظر سے گر جاتے ہیں۔ روز مرہ کے امور میں ذہنی انتشار کی وجہ سے قابو نہیں رہتا اور متعدد مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اپنے غیر پسندیدہ رویے کی وجہ سے رفتہ رفتہ طلبہ میں اپنی عزت و وقعت گنوا بیٹھتے ہیں۔دباؤ کے زیر اثر اساتذہ سے سرزد ہونے والے چند نا خوش گوار برتاؤ کو ذیل میں درج کیا گیا ہے۔
(1)بہت جلد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں خاص طور پر سست متعلمین(Slow Learners) ان کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔بچوں کی معمولی لغزش اور شرارت بھی ان کو ناگوار گزرتی ہے۔
(2)کمرۂِ جماعت میں خلاف معمول برتاؤ کا اظہار کرتے ہیں تدریسی عمل میں ترتیب و تنظیم نہیں پائی جا تی۔ سبق کی تفہیم بھی اغلاط کی وجہ سے مجروح ہوجاتی ہے۔
(3)بہت جلد مشتعل ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو غیر ضروری و غیر مناسب سزاؤں کے ذریعہ تکلیف پہنچاتے ہیں اور بعض مر تبہ بچوں کو بیجا تنقید ،طعن و تشنیع کے زریعے مایوسی کا شکار کردیتے ہیں۔طنز ،طعن و تشنیع اور سزاؤ ں کا ارتکاب جب اساتذہ سے اکثر ہونے لگ جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کسی ذہنی دباؤ یا اضطراب کا شکار ہیں۔
(4)طلبہ ،اپنے ساتھی اساتذہ ،اولیائے طلبہ اور دیگر حضرات سے بہتر تعلقات نہیں رکھ پاتے ہیں، گفتگو میں اجھڑ پن پایا جا تا ہے جس کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی و تلخی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
دباؤ کی عمومی علامات
جب کبھی اساتذہ میں ناکامی کا خوف، جذباتی غیر آسودگی ،احساس محرومی،نا امیدی ،اضطراب ،عدم اطمینان جیسے جذبات سر اٹھاتے ہیں تب تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ اساتذہ کی صحت بھی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اگر دباؤ سے نبرد آزما اساتذہ پر اولین اوقات میں توجہ مرکوز نہیں کی گئی تب وہ ہر ایک آسان کام کی انجام دہی کو بھی ایک سخت جنگ سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔دباؤ کے زیر اثر تدریسی افعال و سرگرمیاں دلچسپی و کشش سے عاری و بے کیف ہوجاتی ہیں۔کسی بھی کام کو عمدہ طریقہ سے انجام دینے کی خواہش کمزو ر بلکہ مفقود ہوجاتی ہے۔طلبہ کا تحکمانہ برتاؤ بھی اساتذہ میں مایوسی کے احساس کو پیدا کرتا ہے۔دباؤ کی وجہ سے اساتذہ اپنی نگہداشت اور صحت پر خصوصی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں اور دن کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے صدی کے مماثل ہوجاتاہے۔ شخصیت کو مجروح و مسمار کردینے والے تنزل پذیر اثرات (Degenerative Effects) سے جب اساتذہ آگاہ ہوجاتے ہیں تب وہ ایسے حالات کا منظم انداز میں سامنا کرنے کے خود کو اہل پاتے ہیں۔ذیل میں دباؤ کے چند علامات اور ان کے اثرات کا سرسری ذکر کیا گیا ہے تاکہ اساتذہ کو اپنی تدریسی سرگرمیوں کو بہتر طورپر انجام دینے میں مددمل سکے۔
(1)دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کے ذہن میں گھر کرلینے سے مستقل سر درد کا احساس پیدا ہوتا ہے۔بعض مر تبہ اس طرح کا خطرناک رجحان دردشقیقہ (Migraine)کا باعث بن جا تا ہے۔
(2)طویل احساس محرومی وناامیدی کے دباؤسے استادبے آرامی اورچڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
(3)دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کی وجہ سے تفکرات و الجھن کا شکار اساتذہ اپنے تدریسی افعال پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں جس کی وجہ سے تدریسی معیار کو بھی برقرار رکھنا تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے۔
(4)ذہن میں گردش پذیر دباؤ کو اگر یونہی چھوڑ دیا جائے تو اس کے بہت ہی تبا ہ کن اثرات نمودار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ اختلاج قلب اور قلب کی بے اعتدال دھڑکن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(5) ْذہنی کارکردگی و افعال پر دباؤ پیدا کرنے والے عناصر کے اثرات کی وجہ سے اساتذہ تھکن، بیماری کے احساس،سینے کے عوارض اور عدم احساس بھوک کے مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔
(6)دباؤ کی وجہ سے پیشہ وارانہ صلاحیتیں اور تعلقات انحطاط پذیر ہوجاتے ہیں ۔دباؤ کے زیر اثر اساتذہ ہر شئے میں خامیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں اور شکایتی رویوں کا ان میں پایا جانا عام بات ہے۔
(7)طویل المیعاد دباؤ کے اثرات کی بنا ء اساتذہ میں اچانک کمزوری نقاہت و قوت کے سلب ہوجانے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں،منہ خشک ہوجاتا ہے اور خلاف معمول پسینے کا اخراج ہوتا ہے۔
(8)ذہن میں دباؤ و خوف کے کنندہ نقوش کی وجہ سے اساتذہ میں بے ہمتی و بے حوصلہ گی ،عدم استقلال ،کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرنے سے پس و پیش کرنے کی کیفیت عام ہوجا تی ہے اور اکثر دباؤ کی وجہ سے اساتذہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔
دباؤ سے نبرد آزما ئی کے تدابیر
اساتذہ دباؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ و خطرناک اثرات سے خود کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لائیں اور دباؤ پیدا کرنے والے بے شمار حالات و عوامل سے خود کو محفوظ رکھنے اور ان کے سد باب کے گر سے خود کو متصف کریں۔دباؤ سے نجات دلانے والے و آسودہ کرنے والے طریقوں و تکنیک سے واقفیت حاصل کریں اور ان پر عمل پیرا ہوکر دباؤ کے مسائل سے خود کو محفوظ رکھیں۔دباؤ سے حفاظت اور اس سے مناسب طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے خاطر خواہ وقت و توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ذہن منفی خیالات و رجحانات کی آماجگاہ بن جاتا ہے جس کی وجہ سے اساتذہ متعدد صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہوجاتے ہیں۔ متنوع برتاؤ و رویوں والے حضرات،مختلف النوع فطرت کے حامل طلبہ، اولیائے طلبہ کے کے غیر حقیقی مطالبات اور ارباب مجاز کے سخت گیر رویے کی بنا ء کئی دباؤ پرور حالات و واقعات کا رونما ہونا فطری امرہے۔ایسے حالات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے ۔ان عوامل کے مضمرات پر قابو پانے اور کم کرنے کے لیے اعلی ذہنی قوت و طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت درکار ہوتی ہے۔مضبوط ذہنی توازن کوبرقراررکھنے کی کوشش یقینا مشکل ہے لیکن جو اس کاز کا ارادہ کر لیتے ہیں ان سے بہتر زندگی گزارتے ہیں جو یہ کام انجام نہیں دیتے ہیں ۔اساتذہ ہر گز دباؤ کے احساس کو ذہن و دماغ کو معطل کردینے کی اجازت نہ دیں اور مثبت فکر کو غیر کارکرد ہونے سے محفوظ رکھیں۔دباؤ سے محفوظ رہنے کے لیے اٹھایا جانے والا ہر چھوٹا اور بڑا قدم نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ہروقت اور ہرگھڑی وقوع پذیر حالات و واقعات پر قابو پانا یقینا ممکن نہیں ہوتا ہے لیکن ہم ایسے حالات کو اپنے ردعمل کے ذریعہ قابو میں رکھ سکتے ہیں۔دباؤ کے حالات میں ہمارا ردعمل ہی اس کے مضر اثرات کو طئے کرتا ہے۔ہم کو اس بات کا بھی اداراک ضروری ہے کہ بعض چیزیں ہمارے قابو و اختیار سے باہر ہوتی ہیں اور ہم ان کو تبدیل کرنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے ہیںاور ہم جب کسی شئے کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں تو اس کو قبول کرلینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے۔
اساتذہ کو دباؤ سے دوچار کر نے اور ذہن کو تعطل کا شکار کردینے والے اثرات سے سامنا کر نے کے لیے درج ذیل امور کا علم ضروری ہے۔
(1)دباؤ ،ذہنی خلفشار اور جسمانی تھکن،چڑچڑاپن پیداکرنے والے حالات کا علم۔
(2)دباؤ کے زندگی ،صحت اور برتاؤ پر پڑنے والے بر ے اثرات سے واقفیت اور اسکے عدم انسداد و عدم علاج کی وجہ سے تدریسی معیار میںواقع ہونے والی پستی کا علم۔
(3)غیر ارادی طورپر وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو مثبت طور پر قبول کرنے اور صبر و تحمل سے اس کا سامنا کرتے ہوئے غیر آسودگی مایوسی اور بدمزگی سے بچا جا سکتا ہے۔
ذیل میں اساتذہ کے لیے دباؤ سے موثر طریقے سے سامنا کرنے کے لیے چند تدابیر کو درج کیا گیاہے۔
(۱) دوسروں کے کسی بھی غیر خوشگوار ردعمل کو فطری مان لیں اور خود کو اس بات کا احساس دلائیں کہ کسی بھی قسم کی فکر و تردد اس ضمن میں بے فیض ہے۔
(2)طلبہ کے تخریبی رویوں ،اولیائے طلبہ کے مطالبات کی عادت،ارباب مجاز کی اساتذہ کے تئیں قائم کردہ اعلیٰ توقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے محرکوں کا اساتذہ دانش وری سے سامنا کریں۔اپنے ضمیر کے مطابق ہر کام کو بہتر سے بہتر انجا م دینے کی کوشش کریں کیونکہ یہ کوشش آپ میں اطمینان قلب کی فضاء ہموار کرے گی اگر آپ اپنے کام و کارکردگی کو دیگر حضرات کے ردعمل کے میزان میں تولیں گے تو یقینا آپ مایوسی ،دباؤ اور اضطراب کا شکار ہوجائیں گے۔
(3)جب کبھی آپ سے کوئی غلطی سرزدہوجائے تو معذرت سے احتراز نہ کریں۔اپنی غلطی کو درست کرتے ہوئے صورت حال کو تبدیل کردیں۔آپ کا یہ قدم غیر ضروری تفکرات ،تناؤ اور دباؤ پیدا کرنے والے خیالات سے نجات پانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ہر کام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں ایک حصے کی تکمیل پر آپ کو دوسرے حصے کے کام کو انجام دینے کا محرکہ ملتا ہے۔
(4)دباؤ کے مسائل واحساسات کو باٹنے کے لیے اچھے مددگار ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے جومسائل کے حل میں اپنا تعاون پیش کر یں اور آپ کے ذہنی خلفشار و دباؤ کے وقت تسکین کا سامان بنیں۔
(5)استراحت و سکون دینے والی تکنیک و طریقوں کا انتخاب کر یں تا کہ آپ اپنے کام کو اطمینان بخش طریقے سے انجام دے سکیں۔اساتذہ سب سے زیادہ اپنی صحت اور جذباتی بہتری کو فوقیت دیں۔
(6)جب کبھی مقاصد کو متعین کریں تو حقیقت پسندی سے کام لیں اور مقاصد کو آسان اور مختصر چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں تاکہ ایک حصے کے کام کی انجام دہی سے دوسرے حصوں کی تکمیل کا محرکہ جاگزیں ہوسکے۔
(7)تدریس ،اسباق و مشقوں کو بہتر اور طلبہ کے لیے پرکیف بنانے کے لیے اپنی تدریسی افعال میں تنظیم و ترتیب کو ملحوظ رکھیں۔طلبہ کا اطمینان آپ میں آسودگی کے احساس کو پیدا کرے گا۔
(8)اپنی عزت نفس کو بہتربنائیں۔ہمیشہ پر امید اور بلند حوصلگی کا اظہار کریں۔اپنی قدروقیمت ،اہمیت و افادیت کے متعلق خود سے ہم کلامی کریں۔کامیابی و ناکامی ،جدو جہد ،آرام و تکلیف ،خوشی و غم کو اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا حصہ تصور کریں۔مثبت سوچ کے ساتھ جینا دباؤ کو کچلنے کا سب سے موثر و کارگر ہتھیار ہے۔منفی خیالات اور منفی رجحانات کے حامل افراد سے میل میلاپ رکھنے سے احتراز کریں کیونکہ یہ لوگ آپ کی ذہنی صلاحیتوں اور آپ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔اپنے افعال ،افکار،خیالات اور احساسات پر قابو پانا سیکھیں اور ترقی پذیر رجحانات کو اپنے ذہن میں جگہ دیں رجعت پسندی سے بچیں۔
اساتذہ مذکورہ بالا نکات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فطری طورپر ابھرنے والے ہر قسم کے دباؤ و تناؤ سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں اور اپنی آسودگی ،کیف و مسرت کو یقینی بناسکتے ہیں۔