نومبر کا مہینہ تھا اور سال ۱۹۴۷، مسلم اکثریتی صوبہ جموں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے ہندوستان کے بٹوارے کے بعد ہی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (جس کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی آج بھارت میں سرکار ہے) کی قیادت میں اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کی فوج نے مل کر انٹرنیٹ پر موجود مختلف اعدادو شمار کے مطابق دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ہارس الکذینڈرکی جانب سے ’دی سیپیکٹیٹر‘ میں شایع مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ: “دو لاکھ کے قریب مسلمان مارے گئے جبکہ ۵ لاکھ کے قریب مسلمانوں کو پاکستان کی جانب دھکیل دیا گیا”۔ تب جموں میں ۶۱ فیصد مسلمانوں کی آبادی اور ہندو ۳۱ فیصد تھے۔ لیکن اس قتل عام کے بعد مسلم آبادی گھٹ کر ۳۵ فیصد کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ اور اب ۷۳ سال بعد صوبہ کشمیر میں بھی ایسی ہی آبادی کو بدلنے کی ایک خوف کی لہر عوام میں دوڑ گئی ہے جب گزشتہ ماہ بھارتی سرکار کی جانب سے اراضی قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کے مطابق اب بھارت کی کسی بھی ریاست کا باشند ہ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے میں غیر زرعی زمین خرید سکتا ہے اور وہاں بس بھی سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخری ہفتہ میں بھارت کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق غیر ریاستی شہری اب جموں کشمیر میں زمین خریدنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا تاہم قانون کے مطابق زرعی اراضی پر تعلیمی ادارے اور طبی سہولیات کے ڈھانچے تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔ دلی کی گدّی پر ۲۰۱۴ ء سے قابض بھارتہ جنتا پارٹی کا لگ بھگ پچھلی تین دہائیوں سے ہی جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنا اپنے انتخابی منشورات میں شامل رہا ہے، اور ہوا بھی وہی۔ ۲۰۱۴ میں اقتدار میں آنے کے بعد بھاجپا نے یہ وعدہ ۵ اگست ۲۰۱۹ء کو پورا کر دیا۔ ہند نواز سیاسی جماعتیں جو آج تک دلی میں موجود سرکاروں کے گُن گاتی پھر رہی تھیں وہ بھی آج اسے دھوکے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی ، فاروق عبداللہ جیسے لیڈران بھی چلا رہے ہیں کہ یہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ ۵ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد بھاجپا کی جانب سے کشمیریوں کی نوکریوں اور زمین کی حفاظت دینے کے وعدے بھی کیے گئے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے خود کہا “کشمیریوں کی زمین کوئی نہیں چھینے گا”۔ رواں سال اپریل میں کشمیریوں کی دلجوئی کیلئے ڈومیسائل قانون بنایا گیا جس کے تحت ۱۵ سال تک جموں کشمیر میں اپنی زندگی گزارنے والا ہی یہاں کا شہری بن سکتا ہے تو غیر ریاستی باشندے جو یہاں کئی سالوں سے جموں کشمیر میں موجود ہیں ڈومیسائل سرٹیفیکٹ حاصل کرنے لگے۔ لیکن اب قانون کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی ہے۔ اور وہی ہوا جس کا کشمیریوں کو ڈر تھا۔ کشمیر میں آبادی کو بدلنے کا منصوبہ کوئی اچانک سے نہیں اٹھا بلکہ یہ سیدھا اسرائیل کی طرز پر انجام دیا جا رہا ہے جو اس نے فلسطین میں کیا۔ ٹھیک ایک سال قبل امریکہ میں ہندوستانی سفیر سندیپ چکرورتی نے کشمیری پنڈتوں کے ایک پروگرام میں اسرائیلی ماڈل کا حوالہ دے کر کہا کہ “پتہ نہیں ہم اس کی تقلید کیوں نہیں کر رہے ہیں یہ مڈل ایسٹ میں ہوا ہے”۔۱۹۶۷ میں ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد سے اسرائیل کی وہاں ۱۶۰ بستیاں بس چکی ہیں۔ ان بستیوں کو عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی مانا جاتا ہے۔
اسی طرح سے خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے مقاصد سے مزید آگاہ کرتے ہوئے ۷ نومبر کو جموں میں میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھاجپا لیڈر جتیندر سنگھ نے کہا کہ “جو کوئی کہتا ہے کہ جموں کشمیر برائے فروخت ہے تو اسے جاننا چاہیے کہ جموں کشمیر کی فروخت گپکار کے بنگلوں سے ہوگی”۔اس سے قبل اسی بھاجپا وزیر نے اکتوبر میں دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ”ڈیموگریفک تبدیلی جموں کشمیر میں اقتصادی تبدیلی لائے گی”۔اسکے علاوہ یہ منطق بھی ہندوتوا نظریے کے لوگ دیتے ہیں کہ اگر جموں کشمیر کا باشندہ دوسری ریاستوں میں زمین خرید سکتا ہے تو باقی ریاستوں کے باشندے جموں کشمیر میں زمین کیوں نہیں خرید سکتے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو بھارت کی کئی شمال مشرقی ریاستوں میں ایسے قوانین موجود ہیں جہاں دوسری ریاستوں کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جموں کشمیر کا بھارت میں ضم نہیں بلکہ الحاق ہوا تھا لیکن اس الحاق کے کاغذات بھی بھارت آج تک اقوام متحدہ میں پیش نہیں کر پایا۔ تو جموں کشمیر کو اسی لیے خصوصی درجہ دیا گیا تھا۔
اب جب کہ جموں کشمیر برائے فروخت ہے اور اسی تناظر میں جموں کشمیر میں ۲۵ ہزار کنال ریاستی زمین محکمہ صنعت وتجار ت کو منتقل کی گئی ہے اور یہ زمین یہاں صنعتوں کے قیام کیلئے باہر کے کاروباریوں کو فروخت کی جائے گی۔ مزید اب جموں کشمیر میں فوج بغیر مقامی انتظامیہ کی اجازت کے کسی بھی علاقے میں کسی کی زمین کو بھی “اسٹریٹجک” قرار دے کر اس پر قابض ہو سکتی ہے۔ ۲۰۱۸ میں تب کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ا سمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جموں کشمیر میں ساڑھے چار لاکھ کنال زمین فوج کے قبضے میں ہے۔ جس میں سے ۳ لاکھ ۸۰ ہزار کنال کشمیر میں ہیں۔ یہی وہ منصوبے ہیں جو مرکزی سرکار اپنا کر یہاں کی زمین ہڑپ کر رہی ہے اور یہاں پھر غیر مقامی لوگوں کا بسانے کے منصوبے ہو رہے ہیں جو کہ انتہائی خطر ناک ہیں۔