روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر کےمطابق گزشتہ 10 ماہ کے دوران قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جو بہت ہی تشویشناک بات ہے۔ 10 ماہ کے دوران 322 افراد کا قتل ہوجانا اور 18000 لوٹ مار کی واداتیں ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس کو کسی بھی لحاظ سے نظر انداز کیا جا سکے۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو کہ رپورٹ ہوئے جبکہ بیشمار واقعات ایسے ہیں جن کی رپورٹ درج کرائی ہی نہیں جاتی۔
تفصیل کے مطابق قتل کی 322 واداتوں کے علاوہ 18 ہزار موبائل فون کا چھینا جانا، 1300 گاڑیوں کا چوری ہونا یا چھینا جانا اور شہریوں کا 30 ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں سے محروم ہوجانا مذکورہ واداتوں کے علاوہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں شہروں اور شہریوں کی حفاظت کا اصل ذمہ دار پولیس کا محکمہ ہی ہوا کرتا ہے اس لحاظ سے کراچی میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی واداتوں کی اصل ذمے داری کراچی کی پولیس پر ہی آتی ہے لیکن یہ بات بھی ہر شخص کے علم میں ہے کہ کراچی پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جس میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں رینجرز بھی تعینات ہے۔ کراچی کو ہر قسم کے جرائم سے پاک صاف رکھنے کیلئے کئی قسم کے فوجی آپریشنوں کا سامنا بھی رہا ہے اور جنرل راحیل شریف کے دور میں قانون سازی کرکے پورے ملک اور خصوصاً کراچی کیلئے رینجرز کو وسیع تر اختیارات بھی سونپے گئے ہیں۔ گو کہ یہ قوانین ایک محدود مدت کیلئے بنائے گئے تھے لیکن اس میں مسلسل 90 دن کی توسیع کرتے کرتے آج تک ان خصوصی اختیارات کو ہی استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر 90 دن کے اختتام پر مزید 90 دن کی توسیع دینے یا نہ دینے کا اختیار صوبائی حکومت کا ہی ہے اور قانونی طور پر صوبہ سندھ کو کلی اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ان اختیارات کو استعمال کرنے کی مزید اجازت دے اور چاہے نہ تو نہ دے۔ اختیارات کے مزید استعمال کی اجازت دینا یا نہیں دینا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ بالآخر امن و امان کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت ہی کی بنتی ہے ناکہ ان فورسز کی جو صوبائی حکومت کی معاونت کیلئے ہمہ وقت موجود ہیں۔
جیسا کہ پوری دنیا میں معمول کے حالات میں شہر اور شہریوں کی حفاظت پولیس ہی کا کام ہوا کرتا ہے۔ ہر ایسا معاملہ جس میں امن و امان، شہریوں کی جان اور مال کو کوئی خطرہ لاحق ہو یا کہیں ہنگامے پھوٹنے کا خدشہ ہو تو پولیس بر وقت کارروائی کر کے حالات کو اپنے معمول پر لیکر آجاتی ہے البتہ صورت حال کے غیر معمولی ہوجانے پر دیگر فورسز کی مدد بھی طلب کر لی جاتی ہے۔ جب صورت حال معمول پر آجائے تو دیگر فورسز واپس اپنے اپنے فرائض پر لوٹ جایا کرتی ہیں اور پولیس دوبارہ شہر کو سنبھال لیتی ہے۔
پولیس کے محکمے کا بہت زیادہ مضبوط اور ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہونا ہی ہر ملک کیلئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ کراچی اگر ایک مشکل شہر ہے تو پھر ضرورت اس بات کی تھی کہ یہاں کی پولیس کو پاکستان کے دیگر شہروں سے کہیں زیادہ مضبوط اور ہر قسم کے حالات پر قابو پانے کی تربیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ کراچی کے امن و امان کو اگر رینجرز یا فوج قابو میں لا سکتی ہے تو ان ہی کی طرح آخر پولیس کی تربیت کیونکر نہیں کی جاسکتی۔
ایک ایسا صوبہ جس کو ایک طویل عرصے سے یہ سہولت حاصل رہی ہو کہ ان کے صوبے کے حالات قابو میں رکھنے کیلئے پاکستانی افواج کی خدمات میسر رہی ہوں تو کیا وجہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے صوبے اور خصوصاً کراچی شہر کی پولیس کی اس معیار کی تربیت کرنے میں ناکام رہی جو صوبے اور شہر کے حالات کا مقابلہ اسی انداز میں کر سکے جس طرح پاکستان کا ایک بڑا ادارہ کرتا چلا آیا ہے۔
کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ بگڑتی ہوئی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات حتمی ہے کہ شہر کی صحیح معنوں میں حفاظت اور امن و امان کو قابو میں رکھنے کی تمام تر ذمے داری صوبائی حکومت ہی کے سر جاتی ہے لیکن گزشتہ کئی دھائیوں سے جس انداز میں اس شہر کو وفاق کنڑول کرتا رہا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے صرف صوبے یا شہری پولیس کو ہی قصوروار قرار دینا کافی حد تک خلاف انصاف بات ہوگی۔ متعدد بار یہ دیکھا گیا ہے کہ صوبے نے جب بھی ساری ذمہ داری اپنے سر لینے کی کوشش کرتے ہوئے ریجرز کو اختیارات میں توسیع دینے کے سلسلے اپنی عدم رضامندی کا اظہار کیا ہے، صوبائی حکومت پر دباؤ آیا ہے۔ صوبائی حکومت پر دباؤ آنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا لیا جا سکتا ہے کہ وفاق کے نزدیک رینجرز کا انخلا حالات کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان ہی تمام باتوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ کراچی کے امن و امان کی اصل ذمے داری کو صوبے، وفاق، مقامی پولیس یا کراچی ریجرز میں سے کس کے سر ڈالا جائے۔ بڑھتی ہوئی قتل و غارت کی وارداتوں، چھینا چھپٹی اور اسٹریٹ کرائم جس طرح بڑھوتری کی جانب جارہے ہیں، اگر ان پر جلد قابو نہ پایا جا سکا تو وہ امن جو کچھ عرصے پہلے دیکھنے میں آرہا تھا، اس کا بگڑ جانا کوئی خوش کن بات نہیں ہو گی اس لئے واضح ہونا چاہیے کہ حالات کو قابو میں رکھنے کے اصل ذمہ دار کون ہیں تاکہ قانون اور عوام ان سے جواب طلب کر سکیں۔