میں جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر کی طرف چل پڑا۔گاڑیوں کی لمبی قطار تھی، سڑک پار کرنے کے لئے کچھ لمحات انتظار کرنے لگا، اسی دوران میری نظر سڑک کے اس پار ایک بزرگ پر پڑی، وہ زمین پر اپنی چھوٹی سے دکان لگائے بیٹھے تھے، وہ اکثر مسجد کے سامنے اپنی ریڑھی لگایا کرتے تھے، کبھی کبھی مقامی سبزی فروش بھی اس جگہ سبزی ،فروٹ فروخت کرنے کا خود کوٹھیکا دار سمجھ بیٹھتا ، اور اسی گمان میں باباجی سے کچھ تلخ کلامی بھی کر لیتاہے ۔
لیکن آج کے حالات کچھ اور تھے، بابا جی کی ریڑھی غائب تھی۔ وہ سڑک کنارے چوکڑی مارے بیٹھے تھے، چار سے چھ ٹوکریاں سامنے پڑی تھیں، ان میں انار، کیلا، اور دیگر چند فروٹ تھے، ایک جانب ترازو ، دوسری جانب لکڑی کی ایک ٹوکری میں مختلف سائز کے رنگین شاپر تھے، باباجی قریب سے گزرتے ہر شخص کو امید کی نگاہ سے دیکھتے ، لیکن اسلام آباد کے ماحول میں رہنے والے لوگ شاندار اور اعلی دکان سے دو کے بجائے دس کی، اور وہ بھی ناکارہ چیز تو خریدلیتے ہیں، لیکن سڑک کنارے سستی، اور اعلی چیز خریدنے سے ان کا سٹیٹس اور شخصیت خراب ہوتی ہے۔
باباجی مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے بیٹھے تھے، یہ منڈی بہاؤالدین کے رہائشی ہیں۔ یہ اپنی دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لئے پہلے ریڑھی لگایا کرتے تھے، میں ان کے قریب گیا، اور سلام عرض کرنے کے بعد پوچھا: باباجی! آپ کی ریڑھی نظر نہیں آرہی ، خیر تو ہے؟ کہنے لگے بس وہ “سی ڈی اے “والے ہیں نا ، وہ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ میں نے کہا تو آپ ان سے لینے کیوں نہیں گئے، کہنے لگے بیٹا! دو دن ہو گئے میری ریڑھی ان کے پاس ہے، میں لینے بھی گیا تھا،لیکن انہوں نے مجھے دو دن کا وقت دے کر واپس بھیج دیا ہے۔ اور میں اتنا انتظار نہیں کر سکتا، بس اسی وجہ سےیہاں ڈیرہ ڈال لیا ہے، کہ اپنی طرف سے رزق تلاش کرنے کی کوشش کر لیں گے، باقی جو نصیب میں ہوگا وہی ملے گا ۔خیر چند منٹ ان کے پاس رکا اور حال احوال کرنے کے بعد گھر کی جانب چل دیا۔
ایک وہ دور تھا جب قحط کے زمانے میں چوری کی سزا اٹھا دی گئی تھی، اور ایک آج کا دور ہے جس میں انسانیت کے بنائے قانون بھی کسی حکمت کے تحت منسوخ نہیں ہو سکتے۔ ملکِ پاکستان جہاں عام حالات میں 24.3 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پھر کرونا کی بات کی جائے تو اس سے بھی سب سے زیا دہ متاثر ہونے والا طبقہ غریب ہے، ایک سروے کے مطابق غریبوں کی تعداد 5 کروڑ سے بڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے۔ کوئی بیماری ہو یا آفت سماوی، یا کوئی مصنوعی آفت، سب سے پہلے غریب اس کا شکار بنتا ہے۔ لیکن ہمارے بنائے کچھ اپنے ہی قاعدے اور قانون غریب کو بھکاری بننے پر مجبور کرتے ہیں۔
ٹھیک ہے ملکی نظام کو منظم کرنے کے لئے کچھ ضابطے اور قانون نہایت ضروری ہیں، لیکن عالمی حالات کے پس منظر میں کچھ نہ کچھ ترمیمات کر لی جائیں، تو غریب کا ہاتھ تھاما جا سکتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک انسان (دیگر بہت ساروں کی طرح) اپنا پیٹ پالنے کے لئے سڑک کنارے کھڑا بھیک نہیں مانگتا ، بلکہ رزق تلاش کرتا ہے۔ وہ عزت کی روزی روٹی کمانا چاہتا ہے، وہ غریب ہے، ان پڑھ ہے، اسے صرف اتنا معلوم ہے کہ انتظامیہ اس کا سامان اٹھا سکتی ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ ایسا کب کب کرنے کی مجاز ہے اور کب نہیں۔ خیر یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس پر پھر کسی دن سہی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اقتصادی سروے اور محتاط اندازے ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ ملک میں غریب افراد کی تعداد 5 کروڑ سےبڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے، لیکن دوسری طرف غریب کو ریلیف فنڈ کے علاوہ ریلیف ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ حالات کے تناظر میں غریب کا چولہا جلنا( جو ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے) نہایت ضروری ہے، اسے حل کرنے میں دیگر بہت سی چیزوں میں غریب کو ریلیف کی ضرورت ہے۔
اس کے چھوٹے سے کاروبار کو محفوظ بنایاجائے، اسے ارد گر د کے بڑے کاروباریوں کے طعن و تشنیع سے بچایا جائے، کچھ عرصہ کے لئے غریب افراد کو ڈھیل دی جائے، انہیں ا سٹال اور ریڑھی لگانے میں دقت سے بچائیں۔ وہ اگر سڑک کنارے اپنی ریڑھی غلط طریقے سے لگائیں، تو ریڑھی ضبط کرنے کے بجائے اس کا رخ سیدھا کر لیں، تو کیے گئے سروے اور محتاط اندازوں کو منہ کی کھانی پڑ سکتی ہے۔ بصورت دیگر غریب ریڑھی چھوڑ کر کشکول یا پھر بندوق ہی تھام سکتا ہے۔ جس سے کثیر بھکاری یا اشتہاری رکھنے والا ایک ملک بھی منظر عام پر آجائے گا، جو پہلے بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔