پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
کم از کم تنخواہ یعنی مینیمم ویجز بورڈ سندھ کے چیر مین جناب زاہد حسین کیمپو نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے اور یہ ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے کہ سند ھ کےاندر غیر ہنر مند مزدوروں کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار ہوگی۔۔۔۔۔معاف کیجئے گا ! سترہ ہزار پانچ سو روپے سالانہ ہوگی پھر ایک بار معذرت ماہانہ ہوگی۔قارئین اکرام آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ با ر بار معذرت کیسی ؟
بات یہ ہے کہ پرسکون ماحول میں ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صوبے۔۔۔ اور میں ذرا آگے ملک کی رعایا کی بات کروں گا ان کی تنخواہوں اور ملک میں بننے والے بجٹ کی بات کروں گا ۔ تو آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ الفاظ کو سپرد قلم و قرطاس کرنے میں عاجز کیوں اتنی غلطی کررہا ہے ۔ملک کا وزیر اعظم ۔۔۔اچھا ذرا درمیان میں یاد آیا کہ وزیر کا مطلب شاید یہ ہوتاہے اردو میں۔۔۔۔ بوجھ اٹھانے والا اور وزیر اعظم کا مطلب ہوا بوجھ اٹھانے والوں کا بڑاذمّہ دار۔ جب وزیر اعظم صاحب یہ کہ رہے ہیں کہ میرا 20000ہزار روپے ماہانہ پر گزارا نہیں ہوتا ارے معاف کیجئے گا ایک صفر کم ہوگیا 200،000 (دولاکھ) روپے میں گزارا نہیں ہوتا ۔اور پھر اسی طرح سے قیاس کرلیجئے ایک صدر پاکستان۔۔۔ارے یاد آیا صدر پاکستان صاحب سے کسی نے آٹے کے بحران کی بات کی تو انہوں سے معصومیت سے جواب دیا کہ مجھے اس کا علم نہیں ۔۔۔مگر ان کو جلد ہی اپنی بھولے پن کا خیال آیا کہ غلطی کرگیا سیاسی بیان اس طرح تھوڑ ی دیتے ہیں بھائی ! فوراٰٰ کہا کہ مجھے معلوم ہونا چاہئے تھا ۔مگر مجھے معلوم نہیں۔۔ ہاں! تو ہم بات کررہے تھے کہ قیاس کرلیجئے کہ صوبوں کے وزراء اعلٰی اور دیگر وزیر ان کے مشیر اور ان کے دیگر قوال و ہمنوا کی تنخواہیں ۔آخر جب وزیر اعظم صاحب کہ رہے ہیں کہ دولاکھ میں میرا گزارا نہیں ہورہا تو یہ بات تو طے ہے کہ دیگر وزراء مملکت کی تنخواہیں کم ہی ہونگی۔اکثر گھروں میں جب کم تنخواہ اور اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے مہینے کے آخر میں کھینچا تانی ہوتی ہے اور اپنی ضرویات کو پوراکرنے اور نئی تخواہ کے ملنے سے پہلے تک کے دن کاٹنا مشکل ہوجاتاہے۔ کسی سے ادھار لینا پڑتاہے ۔ شاید ہمارے امراء و حکام کے گھروں میں بھی اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوتی ہوگی ۔کسی سے ادھار لے کر باقی کے دن گزارتے ہونگے ۔
یہ تو اس ملک کے صدر ، وزیر اور ان کے ہمنوا ؤں کی داستان غم ہے مگر جو لوگ منہ اندھیرے گھروں سے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں ، جو بیلچے اور پھاوڑے تھامے کسی چوک اور چوراہوں میں اپنے لیئے روزی کے انتظار میں جا بیٹھتے ہیں اور اگر مزدوری مل گئی تو شام کو گھر آتے ہوئے آٹا ،تیل ،چنیی اور سبزی لے کر گھر لوٹتے ہیں اور روزانہ کنواں کھودنے اور پانی حاصل کرنے کے مصداق اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکا دتیے ہیں ۔ اور دوسرا پہلو اگر شام تک کوئی مزدوری نہ ملی تو گھر واپسی پر ہزاروں فکر اور اندیشے لیئے گھروں کو لوٹنا جہاں آنکھوں میں خواب لیے بیوی بچوں کا انتظار کہ بابا کچھ کھانے کےلیے لائے گا اور چھوٹی منی کہے گی بابا ! میری مس ناراض ہونگی کل فیس دینی ہے! یہاں ان گلابوں کا ذکر بھی کرنا مجھ پر قرض ہے جو کچرے کے ڈھیر سے اپنے لیے رزق تلاش کرتے ہیں اور پھر ان کا بھی ذکر ہوجائے جن کے گھوڑے بادام اور کتے پلاؤ کھاتےہیں ۔
اوپر ذکر ہوا نوٹیفکیشن کا اور ان کمروں کا جن میں بیٹھ کر یہ خوبصور ت خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ بجٹ جو اس قوم کے لیے تیار ہوتاہے ان ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بجٹ تیار کرنے والوں کو ٹماٹر سترہ روپے کلو ملتے ہیں اور جن کا سفر بذریعہ ہیلی کاپٹر پچاس سےساٹھ روپے کا ہوتا ہے معاف کیجیئے گا پچپن روپے کا ہوتاہے ۔
جہاں یہ سب کچھ ہے وہاں یہ بھی المیہ ہے کہ گذشتہ دنوں سندھ کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف نے احتجاجوں کا سلسلہ شروع کیا ان کا مطالبہ تھا کہ کرونا وبا ء کے موقع پر جن ڈاکٹروں اور نرسنگ عملے نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنی خدمات انجام دی تھی تو ان سے حکومت سندھ نے رسک الاؤنس کا وعدہ کیا تھا وہ ادا کیا جائے خیر کئی احتجاجوں کے بعد یہ اعلان ہوگیا کہ الاؤنس ادا کردیا جائے گا اس کے بعد ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر وں اور اس کے عملے کو بھی بیدار ہونا پڑا کیونکہ یہ بھی وبائی صوتحال میں اپنے فرائض اپنی جان پر کھیل کر انجام دیتے رہے ہیں ۔ خیر کئی احتجاجوں کے بعد حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم کرلیے اور بھی مطالبات تھے جو کہ تسلیم ہوئے اور کچھ ابھی زیر غور ہے ۔مگر قابل ذکر با ت یہ ہے کہ یہاں ایسے بھی ملازمین بھرتی کئے جاتے ہیں جو کہ تھرڈ پارٹی اور ٹھیکیداری نظام کے تحت ہوتے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت بھرتی کئے جانے والےملازمین سے متعلق بھی کچھ مطالبات منظور کرلیے گئے اور ان کے بھی واجبات ادا کردیئے گئے ۔ مگر وہ ملازمین جو کہ تھرڈ پارٹی والے کہلاتے ہیں ۔ جو کہ سالہاسال سے اپنی خدمات انجام دیتے آرہے ہیں اور کرونا کی وبا ء کے دوران بھی خدمات انجام دتیے رہے ہیں۔ ان کی تنخواہ صر ف پندرہ ہزار ہے جوکہ حاضری کی بنیاد پر دی جاتی ہے ۔ کسی قسم کی صحت کی سہولت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔یہ افراد اعلٰی تعلیم یافتہ بھی ہیں اور برسوں سے اتنی ہی تنخواہ پر اپنی اور اپنے گھر والوں کی کفالت کررہے ہیں ۔ان کی ملازمت ایک کچّے دھاگے سے بھی کمزور ہے کسی بھی وقت ایک جھونکا ہوا کا ان کی سالہاسال کی ملازمت کو ختم کرسکتاہے ۔ بات ہورہی تھی مینیمم ویجز بورڈ کے چئیرمین جناب زاہد حسین کیمپویعنی کم ازکم تنخواہ کے بورڈ کے سربراہ کی شاید ان کو اس بات کا علم ہو کہ نہ ہو کہ ایسے ملازمین بھی اس شہر کے سرکاری اداروںمیں پائے جاتے ہیں اگر وہ ان پرسکون ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے باہر آکر نوٹیفکیشن جاری کریں اور ان پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کریں۔