سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں حال ہی میں منعقدہ جی ٹونٹی ممالک کی ورچوئل سمٹ موجودہ وبائی صورتحال میں انتہائی اہمیت کی حامل ایک عالمی سرگرمی رہی ہے۔ عوامی توقعات کے عین مطابق سمٹ میں جہاں اقتصادی و تجارتی امور سمیت متعدد بین الاقوامی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا وہاں دنیا کے بڑے ممالک کے قائدین نے کووڈ۔19کے سدباب کے لیے بھی مفصل بات چیت کی اور “انسداد وبا تعاون” سمٹ میں سرفہرست موضوع رہا۔حالیہ جی ٹونٹی سمٹ کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب دنیا کو وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں متاثرہ مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب یہ امر خوش آئند ہے کہ ویکسین کی تیاری اور دستیابی کے حوالے سے بھی مثبت خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک اہم عالمی طاقت کی حیثیت سے چین کے صدر شی جن پھنگ نے جی ٹونٹی سربراہی اجلاس میں اس بات کو دوہرایا کہ چین ویکسین کی تیاری کے بعد اسے ایک “عوامی شے” کا درجہ دے گا تاکہ دنیا بھر کے عوام تک ویکسین کی رسائی اور پہنچ ممکن ہو سکے۔سمٹ کے دوران چین کی جانب سے واضح کیا گیا کہ ویکسین کی تیاری ،تحقیق،ترقی ،پیداوار اور تقسیم کے حوالے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنایا جائے گااور ویکسین کو ایک “عوامی شے” کا درجہ دینے کے لیے تمام لازمی اقدامات کیے جائیں گے۔چین اس حوالے سےدیگر ترقی پزیر ممالک کی امداد اور حمایت کرے گا۔
بلاشبہ اس وقت دنیا میں وبا کی سنگینی کے تناظر میں اتحاد اور تعاون ہی واحد درست انتخاب ہے کیونکہ دنیا دیکھ چکی ہے کہ عالمگیر وبائی بحران سے کوئی بھی ملک تنہا نہیں نمٹ سکتا ہے ، اگر ایک ملک کے پاس ویکسین دستیاب ہے اور اس کے ہمسایہ ممالک یا دیگر پسماندہ ممالک کی ویکسین تک رسائی نہیں ہے تو اس کا مطلب دنیا بدستور غیر محفوظ ہے کیونکہ اس وبا کے مکمل خاتمے تک کوئی بھی ملک خود کو وبا سے پاک قرار نہیں دے سکتا ہے۔لہذا چین کے ساتھ ساتھ دیگر بڑے ممالک کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے بہترین مفاد میں انسداد وبا کے عالمی تعاون کو موئثر طور پر آگے بڑھائیں بالخصوص ویکسین تک عام آدمی کی رسائی یقینی بنائی جائے۔ویکسین کو صرف اپنے ملک تک محدود کرنے یا اسے “قومی پراڈکٹ” کا درجہ دینے میں کسی ملک کا دیرپا فائدہ نہیں ہے بلکہ ویکسین کی عالمگیر دستیابی ہی وبائی بحران سےنکلنے کا واحد راستہ ہے۔اس وقت ویکسین پر سیاست یا اسے منافع کے حصول کا آلہ سمجھنے کی سوچ نہ صرف تباہ کن ہو گی بلکہ بڑے ذمہ دار ممالک کے شایان شان بھی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چین نے دنیا پر زور دیا ہے کہ وہ ترقی پزیر ممالک پر توجہ دیں اور ایسے ممالک کی امداد کی جائے جن کے پاس صحت عامہ کے وسائل انتہائی محدود ہیں۔چین کو اس بات کا سہرا بھی جاتا ہے اس نے سب سے پہلے ویکسین کی دستیابی کو عام کرنے کی آواز بلند کی اور وہ بھی ایسے وقت میں جب چین میں کئی ویکسینز ٹرائل کے حتمی مراحل میں ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا عزم ٹھوس اور پختہ ہے۔
ویکسین کی مزید بات کی جائے تو یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا کووڈ۔19 ویکسین ایک عام آدمی بھی خرید پائے گا یا نہیں؟ یقیناً یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اگر ترقی پزیر یا کم ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو وہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور ویکسین کی وافر دستیابی کے یے مالیاتی وسائل بھی کم ہیں۔دوسری جانب ایسے ممالک میں “فائزر” اور “موڈرنا” جیسی کمپنیوں کی تیارکردہ ویکسینز کی سپلائی چین اور ان کے تحفظ کے حوالے سے درکار سہولیات کا فقدان بھی ایک بڑامسئلہ ہے ۔ایسی رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کم قیمت اور باآسانی دستیاب ویکسین یقینی طور پر ترقی پزیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کی خواہش ہو گی۔چین نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ محدود وسائل کے حامل ممالک بالخصوص افریقی خطے میں عوام کو وسیع پیمانے پر ویکسین بطور عطیہ فراہم کی جائے گی۔چین ویسے بھی عالمی ادارہ صحت کے تحت ویکسین تیاری کے عالمی تعاون “کوویکس” میں فعال کردار ادا کر رہا ہے اور ایسے میں اُس کی جانب سے ویکسین کی عام فراہمی کا عزم یقیناً دنیا کے بہترین مفاد میں ہے۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ انسانیت کو درپیش اس مشکل بحران میں ایک دوسرے پر الزام تراشی یا پھر وبا کو سیاسی رنگ دینے سے کسی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا ۔ مختلف ممالک یا عالمی تنظیموں کے خلاف الزام تراشی انسداد وبا میں ہرگز کارگر ثابت نہیں ہو گی ، ہاں مگر اس سے وبا کی روک تھام و کنٹرول کے حوالے سے جاری عالمی تعاون کو ضرور نقصان پہنچے گا۔موجودہ صورتحال میں آگے بڑھنے کا واحد اصول اتفاق رائے ،تعاون ،اتحاد اور مشترکہ اقدامات ہے۔عالمگیر وبا سے نمٹنے کے تقاضے بھی عالمگیر ہی ہیں کیونکہ یکطرفہ پسندی میں انسانیت کا بھلا نہیں بلکہ اس سے وائرس کو مزید طاقت ملے گی۔