اردو ميں جسے ہم “بيوی”بولتے هيں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1- إمرأة 2- زوجة 3- صاحبة
إمرأة :امرأة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو۔
زوجة :ايسی بيوی جس سے ذہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذهنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو۔
صاحبة : ايسی بيوی جس سے نه جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو۔
اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے:
1- امراءة: حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام كی بيوياں مسلمان نہیں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو “امراءة نوح” اور”امراءة لوط” كہہ كر پكارا ہے۔ اسی طرح فرعون كی بيوی مسلمان هو گئی تھی تو قرآن نے اسكو بھی “وامراءة فرعون” کہہ كر پكارا هے۔ (سورة التحريم كی آخری آيات ميں)
یہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تهيں ليكن ذهنی ہم آہنگی نہیں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا۔
2- زوجة: جہاں جسمانی اور ذہنی پوری طرح ہم آہنگی ہو وہاں بولا گيا جيسے ( ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭ ﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ )
اور نبی صلی اللّٰہ عليه و سلم كے بارے فرمايا ( يأيها النبي قل لأزواجك … ) شايد اللّٰہ تعالٰی بتانا چاہتا ہے کہ ان نبيوں كا اپنی بيويوں كے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔ ایک عجيب بات هے زكريا علیہ السلام كے بارے کہ جب أولاد نہیں تھی تو بولا گیا ہے(و امراتي عاقرا… ) اور جب أولاد مل گئی تو بولا گیا ہے (ووهبنا له يحی و أصلحنا له زوجه… ) اس نكته كو اهل عقل سمجھ سكتے هيں۔
اسی طرح ابولهب كو رسوا كيا يہ بول کر(وامرأته حمالة الحطب ) كہ اس کا بيوی كے ساتھ بھی كوئی اچھا تعلق نہیں تھا۔
3- صاحبة: جہاں پر كوئی کسی قسم کا جسمانی يا ذہنی تعلق نہ ہو۔ اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ذات كو جب بيوی سے پاک کہا تو لفظ “صاحبة” بولا اس لئے كه یہاں كوئی جسمانی يا ذہنی كوئی تعلق نہیں ہے (ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ) اسی طرح ميدان حشر ميں بيوی سے كوئی جسمانی يا ذہنی كسی طرح كا كوئی تعلق نہیں ہو گا تو فرمايا۔(ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ) كيونکہ وہاں صرف اپنی فكر لگی ہو گی اس لئے “صاحبته” بولا۔
اردو ميں: امراءتي , زوجتي , صاحبتي سب كا ترجمة ” بيوی” ہی كرنا پڑے گا۔ يكن ميرے رب كے كلام پر قربان جائيں جس كے ہر لفظ كے استعمال ميں كوئی نہ كوئی حكمت چھپی ہے۔ اور رب تعالى نے جب دعا سکھائی تو ان الفاظ ميں فرمايا،
وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ(سورہ الفرقان: آیت، 74) ترجمہ: “اور وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں، اے ہمارے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں/شوہروں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما”
تفسیر: یعنی جس راستے پر ہم چل رہے ہیں، ہمارے اہل وعیال (شوہر،بیوی بچے) کو بھی اسی راستے پر چلنے والا بنادے تا کہ ان کی طرف سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، کیونکہ اللّٰہ کے ان نیک بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تو اسی میں ہو گی کہ ان کے گھر والے بھی اللّٰہ کے فرمانبردار بندے بنیں اور اللّٰہ کی بندگی کے راستے کو اختیار کریں، قرآن کے احکام پے عمل کریں، اس کے برعکس اگر گھر کا سربراہ اللّٰہ کے دین پر چلنے والا نہ ہو اور اس کے اہل و عیال کی ترجیحات کچھ اور ہوں تو گھر کے اندر کشیدگی اور کشمکش کا ماحول پیدا ہو جائے گا جو ان میں سے کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہو گا۔” وأزواجنا” زوجہ سے استعمال فرمايا اس لئے كہ آنكھوں کی ٹھنڈک تبھی ہو سکتی ہے جب جسمانی كے ساتھ ذہنی بھی ھم آہنگی ھو۔ یہ قرآن مکمل راہ ہدایت ہے اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنیوالوں کیلئے۔