استغفار شیطان اور اس کی فوج کے خلاف مومن کا ہتھیار ہے۔اپنی غلطی پر ندامت کے ساتھ استغفار ہماے باپ آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور اپنے عمل پر ضد اور اصرار کے ساتھ جم جانا ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا طریقہ ہے۔ہر زمانے میں انبیاء ؑ و صالحین اور متقین نے اپنے باپ آدمؑ کی سنت کو اختیار کیا ہے، جبکہ اللہ کے باغی اور نافرمانوں نے شیطان کے طریقے کو اپنایا ہے۔
استغفار ایک بڑی عبادت ہے جس کا شرف اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے۔اللہ تعالی کے نبی مکرم حضرت محمد ﷺ نے خود اپنے اوپر استغفار کو لازم کر رکھا تھا تو پھر دیگر مسلمانوں کا کیا حال ہوگا۔استغفار کرنے والوں کو اللہ کی محبت ملتی ہے، اور اللہ مغفرت مانگنے والوں اور استغفار کرنے والوں پر بڑا ہی کرم فرمانے والا ہے۔
استغفار کے معنی مغفرت کی طلب کے ہیں، اور مغفرت کے معنی گناہوں کی پردہ پوشی اور ان کے شر سے بچاؤ ہے۔بندہ اللہ سے استغفار کرتا ہے کہ اللہ دنیا میں اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے، اور اس کا گناہ اس کی فضیحت کا سبب نہ بنے اور آخرت میں بھی اس کو ظاہر نہ کرے اور اپنی رحمت اور عفو سے اس کا گناہ معاف فرما دے۔
استغفار کی فضیلت یہ ہے کہ قرآن کریم میں استغفار کرنے کی ترغیب کثرت سے دی گئی ہے، ایک مقام پر فرمایا:
“اللہ سے استغفار کرتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور ورحیم ہے”۔ (المزمل، ۲۰)
اللہ تعالی استغفار کرنے والوں کی مدح بیان کرتا ہے:
“رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں”۔ (آل عمران، ۱۷)
ابن کشیرؒ فرماتے ہیں کہ رات کی آخری گھڑیاں یعنی تہجد کا وقت استغفار کا بہترین وقت ہے۔ حضرت یعقوبؑ کو ان کے بیٹوں نے جب معافی کی درخواست کرنے کو کہا تو انہوں نے سحر کے وقت کا انتظار کیا اور سحر میں اللہ سے ان کے لئے معافی کی درخواست کی۔(تفسیر ابن کثیر، ج۱، ص۴۳۴)
اور اللہ تعالی بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ اس کے حضور استغفار کرتے ہیں ہیں وہ ان سے کیا معاملہ کرتا ہے:
“اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے، تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا”۔ (النساء، ۱۱۰)
اس آیت میں وہ کلیہ بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق اللہ اپنے بندوں کے ساتھ سلوک و انصاف کرے گا۔ اس آیت میں معافی کا دروازہ چوپٹ کھلا رکھا گیا ہے۔ اگر لوگ توبہ کریں تو اللہ کے دروازے کو کھلا پائیں گے۔ اس طرح ہر گناہگار تائب کو معافی کی امید دلائی گئی ہے۔ پس اللہ تعالی موجود ہے، اور اس کی رحمت اور مغفرت موجود ہے بشرطیکہ کوئی معافی مانگنے والا اور استغفار کرنے والا موجود ہو۔ بندہ کسی غیر پر ظلم کرے یا خود اپنے نفس پر، بہر حال ظالموں کے لئے معافی کا دروازہ کھلا ہے، اگر وہ استغفار کرلیں۔ اور اگر وہ توبہ کر کے واپس آئیں تو وہ انہیں معاف کرنے کے ساتھ ان پر رحمت بھی کرتا ہے۔ باب المغفرت کھلا ہے اور اس پر کوئی دربان نہیں، اور یہ اعلان، اعلانِ عام ہے۔ بے قید اور بے شرط ہے۔ جب بھی وہ توبہ کر کے لوٹ آئیں تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
استغفار بندے اور رب کو ملانے والی صفت ہے، اور یہ رب تک رسائی کا کھلا دروازہ ہے۔ اعترافِ جرم، ندامت اور استغفار، اپنی کمزوری کا شعور اور اللہ سے استعانت اور رحمت طلب کرنا، اور یہ شعور کے اللہ کے سوا کوئی قوت کا سرچشمہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی معاونت کر سکتا ہے۔
استغفار ایک دائمی عبادت ہے، اور یہ گناہگاروںکا سہارا اور عبادت گزاروں کا طریقہ ہے۔مالک الملک کے حضور توبہ کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو گا کہ بندہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور اپنے قصوروں اور کوتاہیوں کی مغفرت طلب کر لے۔استغفار محض چند کلمات نہیں بلکہ یہ عاجز بندے کا غفور و رحیم رب سے گہرے تعلق کا راز ہے۔جو بندے اللہ سے استغفار کرنے کا تعلق استوار کرتے ہیں وہ انہیں اپنے مامون بندوں میں شمار کرتا ہے اور انہیں مقہور اور عذاب کا شکار ہونے والے گروہوں میں شامل نہیں کرتا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے‘‘۔ (الانفال، ۳۳)
یعنی کسی گناہگار بستی میں نبی کا موجود ہونا اس بات کا امکان بھی ہے کہ بستی کے لوگ ایمان لے آئیں، اور اللہ کا قاعدہ یہ بھی ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں تو وہ ان پر عذاب نازل نہیں فرماتا، اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عذابِ الہی کے مستحق ہوتے ہیں۔
اللہ تعالی حج بیت اللہ جیسی بڑی عبادت کی ادائیگی کے موقع پر بھی استغفار کی تاکید فرماتا ہے:
“پھر جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے”۔ (البقرۃ، ۱۹۹)
یعنی اعمال کی قبولیت کے مقام اور اسکی رحمتوں کے نزول کے مقام پر بھی استغفار کی تاکید ہے کہ محض زبان سے کلمات ادا نہ ہوں بلکہ دل سے توبہ بھی کی جائے۔اگر زبان دل کی شمولیت کے بغیر استغفار کرتی رہے تو وہ غیر نافع ہے۔
استغفار کرنا اہلِ ایمان کی پسندیدہ صفت ہے، ارشاد ہے:
“جن کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے، یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ کے سوا ور کون ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہو ۔اور وہ دیدہ ودانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے”۔ (آل عمران، ۱۳۵)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت کس قدر کشادہ دل ہے، اور اللہ اپنے بندوں کے معاملات میں کس قدر فیاض ہے۔ یہ دینِ اسلام کی فیاضی ہے کہ وہ گناہ کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو بھی متقین میں شمار کرتا ہے۔ گناہ اور فحش کام اسلامی نقطہ نگاہ سے بدترین گناہ اور بڑے گناہوں میں سے ہیں، اور یہ اس دین کی فیاضی ہے کہ وہ فحاشی جیسے گھناؤنے جرم کے ارتکاب کرنے والے کو بھی راندہء درگاہ نہیں بناتا، اور اس پر رحمت کے دروازے بند نہیں کئے جاتے۔ نہ یہ دین ایسے لوگوں کو دوسرے درجے کے مسلمان قرار دیتا ہے، بلکہ ان کو بھی متقین کے اعلی درجے پر فائز کرتا ہے، اور اس درجے پر پہنچنے کے لئے ان پر صرف ایک شرط عائد کی جاتی ہے، وہ شرط یہ ہے کہ ارتکابِ معصیت کے بعد معاً وہ اللہ کو یاد کر لیں، اور اپنے گناہوں پر استغفار کر لیں اور پھر اس گناہ پر اصرار نہ کریں، اور یہ کہ وہ معصیت میں بے شرمی اور بے باکی سے غرق نہ ہو جائیںاور اللہ کی بندگی کے دائرے میں رہیں اور اسی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیں۔ بندہ جب تک اللہ کو یاد رکھتا ہے اور اس کے دل میں اس کا خوف پایا جاتا ہے، جب تک وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے، اس کی بندگی کا اقرار کرتا ہے اور اس کی نافرمانی اکڑ کر نہیں کرتاتو وہ راہِ راست پر آ سکتا ہے۔اس طرح توبہ کا دروازہ کھلا رکھ کر اسلام بے راہ روی میں لوگوں کو آزاد نہیں چھوڑتا، اور وہ گناہ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، بلکہ گناہ پر ندامت اختیار کرنے والوں اور استغفار کرنے والوں کی ہمت بندھاتا ہے۔ (دیکھئے: فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اکثر اوقات توبہ اور استغفار کا ذکر اکٹھے کیا جاتا ہے، استغفار اس کیفیت کا نام ہے جب بندہ اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کی مغفرت زبان سے مانگتا ہے، اور توبہ اس کے دل اور اعضاء سے اس گناہ کا اثر ختم کر دینے کا نام ہے، توبہ میں ایسی ندامت پائی جاتی ہے کہ بندہ اس گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرنے کا خیال بھی نہ لائے اور اسے اپنے اعمال کے دفتر سے بھی مٹا دینا چاہے۔استغفار کا حکم دعا کا ہے، جسے اللہ رب العالمین قبول یا رد کر دیتا ہے۔اور جب دعا منکسر المزاجی سے مانگی جائے اور بندہ عفو کا طالب ہو تو ربِ کریم اس کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
استغفار کرنے والوں پر رب العالمین نعمتوں کا دروازہ کھولتا ہے؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
“اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا”۔ (ھود، ۳)
یعنی آخرت ہی میں نہیں، اس دنیا میں بھی مستغفرین کو مال و متاع عطا کیا جاتا ہے۔اور صرف فرد ہی نہیں بلکہ قوموں کی زندگی بھی بدل جاتی ہے؛ اللہ تعالی کا یہ حکم حضرت ھودؑ نے اپنی قوم کو سنا یا:
“اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دھانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر اور قوت کا اضافہ کرے گا۔ مجرموں کی طرح منہ نہ کھولو”۔ (ھود، ۵۲)
اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے جو قوم اپنے برے انجام کی جانب بگ ٹٹ چلی جا رہی ہو، اگر وہ اپنی غلطی کو محسوس کر لے اور نافرمانی چھوڑ کر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے تو اس کی قسمت بدل جاتی ہے، اس کی مہلتِ عمل میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور مستقبل میں اس کے لئے عذاب کے بجائے انعام، ترقی اور سرفرازی کا فیصلہ لکھ دیا جاتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۴۶)
نافرمانوں کے لئے استغفار اذنِ رحمت ہے
قرآن ِ کریم میں نافرمان قوموں کو استغفار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،ارشاد ہے:
“دیکھو اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آؤ، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبّت رکھتا ہے”۔ (ھود، ۹۰)
یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر بڑی عنایت ہے کہ وہ جب بھی اپنے افعال پر نادم ہو کر اسکی جانب پلٹتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں، تو وہ انہیں اپنے وسیع دامنِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ کیونکہ اپنی پیدا کی ہوئی مخلوق سے وہ بے پایاں محبت رکھتا ہے۔
مستغفرین اور پلٹ آنے والوں سے اللہ اسی طرح خوش ہوتا ہے، جس طرح صحرا میں اونٹ گم ہوجانے والا شخص اس کے ملنے پر خوش ہوتا ہے، جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو اور وہ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مایوس ہو چکا ہو، اور زندگی سے بے آس ہو کر لیٹ گیا ہو، اور عین اس حالت میں دیکھے کہ اس کا اونٹ سامنے کھڑا ہے، تو اس وقت جیسی کچھ خوشی اس کو ہو گی، اس سے بہت زیادہ خوشی اللہ کو اپنے بھٹکے ہوئے بندے کے پلٹ آنے سے ہوتی ہے۔ (دیکھئے: تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۶۳)
حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو حق کی تبلیغ کی تو انہیں باصرار علانیہ اور چپکے چپکے سمجھایا : “میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے”۔ (نوح، ۱۰)
قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے کہ خدا سے بغاوت صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ دنیا میں بھی انسان کو تنگ کر دیتی ہے اور اللہ تعالی کی اطاعت کا راستہ دنیا میں بھی اس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمرؓ بارش کی دعا کرنے کے لئے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ نے بارش کے لئے تو دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا: میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکٹھا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے، اور پھر سورۃ نوح کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔ (ابنِ جریر و ابنِ کثیر)
حسن بصریؒ کی مجلس میں ایک شخص نے قحط سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا: اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی اور تیسرے نے کہا: میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی، چوتھے نے کہا: میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہر ایک کو انہوں نے استغفار کرنے کی تلقین کی۔ اور جب لوگوں نے اس پر سوال کیا تو آپ نے جواب میں سورۃ نوح کی یہ آیات سنا دیں۔ (کشاف)
دوسروں کے لئے استغفار کرنا
اللہ تعالی نے بندوں کو خود بھی استغفار کی تلقین کی، پیغمبروں نے بھی اللہ سے مغفرت کی سفارش بھی کی،حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کا معاملہ جب کھل گیا تو انہوں نے والد سے کہا کہ ہمارے لئے اللہ سے معافی مانگیں:
“سب بول اٹھے: ابا جان! آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے۔ اس نے کہا: میں اپنے رب سے تمہارے لئے معافی کی درخواست کروں گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے”۔ (یوسف،۹۸۔۹۷)
ابراہیمؑ نے بھی اپنے والدیکے لئے استغفار کرنے کا وعدہ کیا تھا:
“ابراہیمؑ نے کہا: سلام ہے آپ کو۔ میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے”۔ (مریم، ۴۷)
اور کہتے ہوئے انہوں نے باپ کو یہ بھی بتا دیا تھا:”میں آپ کے لئے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں”۔(الممتحنہ، ۴) حضرت ابراہیمؑ نے انتہائی محتاط لہجے میں اس وعدے کے مطابق دعا کی تھی مگر جب آپؑ کی نظر اس جانب گئی، کہ ان کا باپ تو کھلم کھلا خدا کا باغی ہے تو وہ اس دعا سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادارمومن کی طرح انھوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی۔ (دیکھئے: تفہیم القرآن، ج۲، ص۲۴۲)
انبیاء علیھم السلام کا استغفار
انبیاء علیھم السلام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی ان کی حفاظت فرماتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں جا بجا ایسے واقعات ملتے ہیں جب اللہ تعالی کے یہ برگزیدہ بندے بھی اس کے حضور رکوع و سجود میں جھکے ہوئے اور اس کے سامنے عاجزی سے کھڑے استغفار کر رہے ہیں، اور معافی اور مغفرت مانگ رہے ہیں۔حضرت آدم وحواؑ جنت کا پھل کھانے کے بعد اللہ سے مغفرت کے کلمات سیکھ کر دعا مانگتے ہیں: “اے ربّ، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے”۔ (الاعراف،۲۳)
حضرت نوحؑ اپنے کافر بیٹے کو طوفان میں ڈوبتے دیکھ کر اللہ کو پکارتے ہیں، کہ میرے گھر والا ڈوب رہا ہے، اور اس نازک نفسیاتی موقع پر اللہ کی جانب سے احساس دلایا جاتا ہے، “وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے”۔ (ھود، ۴۶)اور حضرت نوحؑ گڑگڑا کر دعا مانگتے ہیں:
“اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا”۔ (ھود، ۴۷)
حضرت ابراہیمؑ بڑی عاجزی سے اللہ کے حضور درگزر کی امید رکھتے ہیں: “اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا وہ میری خطا معاف فرما دے گا”۔ (الشعراء، ۸۲)
حضرت داوودؑ جب دنبیوں والے معاملے میںمبتلائے فتنہ ہو گئے، اور اللہ نے اپنے محبوب بندے کا محاسبہ کیا اور انہیںاپنی تقصیر کا احساس ہوا، توفوراً اسی رب کی جانب پلٹ کر اس سے معافی مانگ لی۔ ان کی کیفیت کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے: “(یہ بات کہتے کہتے) داودؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے، چناچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا”۔ (ص، ۲۴)
حضرت سلیمانؑ کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا، جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈالا گیا تو وہ فوراً اپنی لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر اپنی اس بات سے رجوع کر لیاجس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے، اور دعا کی: “اے میرے رب مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی اور کے لئے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے”۔ (ص، ۳۵)
حضرت موسیؑ کے ہاتھوں قبطی مارا گیا تو انہوں نے اللہ سے اس لغزش کی معافی مانگی: “پھر وہ کہنے لگا: اے میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے”۔ (القصص،۱۶)
اللہ تعالی کے برگزیدہ انبیاء ورسل کی منتہائے آرزو ہے کہ اللہ قیامت کے دن ان کی خطائیں معاف کر دے، حالانکہ وہ اللہ کو سب سے بڑھ کر پہچانتے ہیں، اور ان کے نفس کی گہرائیوں میں رب کی معرفت رچی بسی ہے، اس معرفت اور قرب کے ساتھ بھی وہ اللہ سے ڈرتے ہیں کہ ان سے کوئی خطا ہوئی ہو۔ وہ اپنے اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے، وہ فضلِ ربی پر بھروسہ کرتے ہیں، اور اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں کہ عفو ودرگزر ہو گا تب ہی ان کی نجات ہو گی۔ اس شعور کے مطابق عمل کی قیمت بہت ہی کم ہے اور مغفرت کی قیمت زیادہ ہے۔ (دیکھئے: فی ظلال القرآن، نفس الآیۃ)
اگر اللہ تعالی کے ان برگزیدہ بندوں کا یہ حال ہے تو پھر ایک مومن کو اپنے رب سے کس قدر مغفرت مانگنے کی ضرورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا استغفار
رسول اللہ ﷺ کی حیات میں استغفار کا مستقل حصّہ تھا اس کے باوجود کہ اللہ تعالی نے انہیں بخش دیا تھا۔ حضرت اغر المزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے دل پر بھی (بعض اوقات )پردہ سا آ جاتا ہے اور میں دن میں سو ۱۰۰ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۹۷۷)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم میں ایک دن میں ستر سے زائد مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا اور اس سے توبہ کرتا ہوں‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۹۵)
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص استغفار کی پابندی کرے، تو اللہ تعالی اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا اور ہر غم سے اسے نجات عطا کرتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا”۔ (رواہ ابن ماجہ، ۳۸۱۷)
حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: بندے کا یوں پکارنا سید الاستغفار ہے، “اے اللہ تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں جہاں تک طاقت رکھتا ہوں تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں اور میں اپنے کئے ہوئے عمل کے شر سیتیری پناہ مانگتا ہوں، میں ان نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں جو تو نے مجھ پر کیں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، پس تو مجھے معاف کر دے، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں”۔ جو شخص یہ کلمات استغفار دن میں دل کے یقین سے کہے اور شام ہونے سے پہلے اسے موت آ جائے، تو وہ جنتی ہے اور جو اسے یقین کے ساتھ رات کو پڑھے اور صبح ہونے سے پہلے اسے موت آجائے، تو وہ جنتی ہے۔ (رواہ البخاری، ۶۳۲۳)
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (سلام پھیر کر) اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار فرماتے اور یہ دعا مانگتے: اے اللہ تو سلام ہے، اور سلامتی تیری ہی طرف سے ملتی ہے۔ اے عزت اور جلال کے مالک، تو بڑی برکتوں والا ہے”۔ (رواہ مسلم)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ’’اے ابنِ آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا، تو تو جس حالت پر بھی ہو گا میں تجھے معاف کرتا رہوں گا اور میں کوئی پرواہ نہ کروں گا۔ اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے معافی طلب کرے (استغفار کرے) تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے ابنِ آدم! اگر تو زمین بھر گناہوں کے ساتھ میرے پاس آئے، پھر تو مجھے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، تو میں بھی اتنی مغفرت کے ساتھ تجھے ملوں گا جس سے زمین بھر جائے‘‘۔( رواہ مسلم، ۵۰۶۰)
سلف صالحین کے اقوال
حضرت قتادہؒ کا قول ہے: ’’بے شک قرآن تمہارے امراض کی نشاندہی بھی کرتا ہے اور ان کی دوا بھی بتاتا ہے، تو تمہارے امراض تمہارے گناہ ہیں، اور ان کی دوا استغفار ہے‘‘۔
حضرت حسن بصریؒ کا قول ہے: ’’اپنے گھروں ،دسترخوان ، اپنی گزرگاہوں اور بازاروں اور اپنی مجلسوں اور جہاں بھی تم جاؤ ، کثرت سے استغفار کرو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ کب مغفرت نازل ہو جائے‘‘۔
ابی المنھالؒ نے کہا: ’’قبر میں ہم نشینی کے لئے کثرتِ استغفار سے بڑھ کر کوئی ساتھی نہیں‘‘۔
استغفار کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی حمد وثنا بیان کرے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرے۔
استغفار کی کیفیت
استغفار مومن کی ڈھال بھی ہے اور اس کی امان بھی، روز وشب کی مشغولیات میں مومن کی سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو اللہ کی ناراضی کا سبب بنے، اور اس کے نیک اعمال میں ایسی کمی نہ رہ جائے کہ وہ قبولیت کا درجہ نہ پا سکے۔ اسی لئے وہ ہر عمل کے دوران اور اس کے مکمل ہونے پر عفو اور مغفرت اور اللہ سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے۔ ایمان لانے کے ساتھ ہی اس کی دعا ہوتی ہے کہ اے ارحم الراحمین میری مغفرت فرما دے۔اللہ کی کائنات کی سیر کرتے ہوئے جب سبحان اللہ کہتا ہے تو بھی مغفرت مانگتا ہے۔ہر نماز کا اختتام اپنی والدین اور تمام مومنوں کی مغفرت مانگنے پر کرتا ہے، اور سلام پھیر کر نماز مکمل کرتا ہے تو سب سے پہلے تین مرتبہ استغفراللہ کہتا ہے۔رمضان المبارک کے آخری عشرے میں استغفار مزید بڑھ جاتا ہے، اور حج کی تیاری کے مراحل ہی میں معافی اور استغفار کی دعائیں کسی قیمتی توشے کی مانند اس کے ہمراہ ہوتی ہیں۔کسی مصیبت میں گھر جائے تو دعائے یونس ؑ مانگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحبِ فضل معبود وہی ایک اللہ ہے۔
استغفار کے فوائد
استغفار کے ثمرات انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اللہ تعالی نے قرآن میں بھی بعض کا تذکرہ فرمایا ہے، جیسے استغفار کرنے والوں پر اللہ تعالی عمدہ بارش برساتے ہیں اور نہریں اور باغات عطا فرماتے ہیں، اور مستغفرین کو رزق اور مال و اولاد سے نوازتے ہیں۔استغفار کرنے والوں کے لئے اللہ کی اطاعت اختیار کرنا اور اس کی مرضی کی راہ اختیار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔اور استغفار کرنے والے بندے کا اللہ سے تعلق بہت مضبوط ہو جاتا ہے، وہ شیطان سے دور ہو جاتا ہے۔وہ اپنے دل میں ایمان کی حلاوت محسوس کرتا ہے،اس کی زندگی سے رنج اور غم دور ہو جاتے ہیں۔ ہر بار قصور سرزد ہونے پر جب وہ اللہ سے استغفار کر لیتا ہے تو اس کی رحمت اور عفو کے دائرے میں شامل ہو جاتا ہے، وہ توبہ کی خوشی اور لذت پر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔موت کے وقت اسے ملائکہ بھی خوشخبری سنائیں گے اور وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا۔
استغفار کرنے والوں پر ابلیس کا رنج
یہ بات ابلیس کے غیض و غضب کو بڑھاتی ہے کہ وہ انسان جسے اس نے اتنے حیلوں اور مکاریوں سے گناہ پر آمادہ کیا، اور وہ اس سے گناہ کا ارتکاب کروانے میں کامیاب ہو گیا، اور اس نے اسے اللہ کی رحمت اور مغفرت سے ایسا مایوس کر دیا کہ وہ اللہ کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکل آیا اور حرام کی سواری پر بگ ٹٹ بھاگنے لگا، حتی کے کفر کا ارتکاب کر بیٹھا۔اور پھر ان تمام آلائشوں سے نجات کے لئے اس نے اللہ کی پناہ میں جانے کا ارادہ کر لیا اور’’ اعوذباللہ‘‘ کہا، اور برے اعمال سے دور ہٹنے کے لئے یہی انسان کا سب سے بڑا اسلحہ ہے جو اس کے نفس کو بچا لیتا ہے۔اور استغفار کو لازم کر لینااور گناہوں پر توبہ کرتے رہنااسے شیطان مردود سے دور کر دیتا ہے۔جو ایسا کر لے وہی اپنے نفس کے لئے مجاہدہ کرنے والا ہے۔
استغفار کرنے والا اپنے عام و خاص ہر طرح کے قصوروں کی معافی مانگتا ہے،گناہوں کے ارتکاب پر شرمندہ ہوتا ہے، اور عمل کی کوتاہی اور کمی پر بھی اللہ ہی سے مغفرت مانگتا ہے۔ خواتیمِ اعمال پر مغفرت انبیاء وصالحین کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ النصر میں اس کی تعلیم دی، اور رسول اللہ ﷺ نے آخری زمانے میں استغفار کو اور زیادہ بڑھا دیا۔
اللہ تعالی معافی مانگنے والوں کا ذکر بھی بڑے پیارے شفقت بھرے انداز میں کرتا ہے اور فرماتا ہے: ’’ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ پلٹ آئیں‘‘، یعنی آقا نے ان کی معصیت کے سبب ان سے نگاہ پھیر لی تھی، مگر جب وہ بندے قصور سرزد ہونے کے بعد بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شانِ وفا داری دیکھ کرآقا سے خود نہ رہا گیا۔ جوشِ محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیاتاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لے۔(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات، ص۱۵،۱۶)
اللہ تعالی ہمیں استغفار کرنے والوں میں شامل کر لے۔آمین