ہجرت کے بعد جب ریاست مدینہ بنی اس وقت مدینہ کی معیشت پوری کی پوری یہودیوں کے ہاتھوں میں تھی، وہ سودی قرضے دے کر لوگوں کو قرض کے شکنجے میں اس طرح کس دیتے تھے کہ شہری اس شکنجے سے نکل نہ پاتے، غریب تھے کہ قرض در قرض ۔پھر سودپر سود ۔وہ جائیں تو جائیں کہاں کی مصداق، جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو اللہ کی مشیت کو جوش آتا ہے اور مدینہ میں مسلمان ریاست کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
اور پھر وہ انہونی ہوتی ہے کہ رہتی دنیا دانتوں میں انگلی داب کر محو حیرت ہو جاتی ہے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت اسلامی کا نظام قائم کرکے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی بنا کر ایسے محبت کے رشتے میں باندھ دیا کہ کوئی کسی پر بوجھ نہ رہا اور ایسی قربانی سے معاشرے میں وہ انقلاب آیا کہ وہ معاشی فرق ہی ختم ہو گیا۔ مہاجرین مکہ سے آئے تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ مدینہ آئے تھے تو نبی مہربان صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تم یہودیوں سے سودی قرض لے لو اور اپنے آپ کو بحال کرو بلکہ بھائی چارہ کا یہ بے مثال رشتہ قائم کردیا اس کے ساتھ ساتھ قرض حسنہ کا نظام قائم فرمایااور بلا سودی قرضوں کے ذریعے سے عملا باہمی امداد کا نظام قائم کیا معاشرے سے سود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اللہ نے حرمت سود کے لئے قانون سازی فرمادی۔سورہ بقرہ میں فرمایا:
“جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کر دیا ہو یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو سود ہی جیسی چیز ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سےنصیحت پہنچی اور وہ سود خوری سے باز آگیا تو وہ کچھ پہلے کھا چکا سو ہو چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ لیکن جو اس کلمہ کے بعد پھر اس حرکت کا ارادہ کرے تو وہ جہنمی ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اللہ تعالی سود کو بے برکت کر دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل کو پسند نہیں کرتا”
“اے ایمان والو خدا سے ڈرو! اور جو کچھ سود تمہارا لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم واقعی مو من ہو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اگر تم توبہ کرلو (اور سود سے باز آجاؤ )تو تم اصل سرمایہ لینے کے حقدار ہو نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائےتمہارا قرض دار اگر تنگ دست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر تم صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو اس دن سے ڈرو جس دن تمہیں خدا کی طرف لوٹنا ہے جہاں ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جائے گی”
اس طرح اللہ نے سود کو حرام قرار دے دیا اور معاشرے میں اس نظام کو جو یہودیوں نے جکڑ رکھا تھا باطل کر دیا اور مسلمان معاشرے اور قرآنی نظام کے قائم ہونے سے فلاحی نظام کا قیام عمل میں آ گیا ، اللہ نے سود کی حرمت قائم کردی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھائی چارے اور صدقے کے نظام کے ساتھ ساتھ کفالت کا نظام بھی قائم کر دیا
“جس کو اللہ نے وسعت دی ہے وہ تنگ دست و محتاج کو دے”
اور مال میں زکوۃ فرض کی اور صدقہ کو نفلی اورلا محدود رہنے دیا پھر اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا کہ فضول خرچ شیطان کا بھائی ہے مال جب اللہ کے لیے اللہ کے بندوں پر خرچ کیا جائے تو دنیاوی مال میں برکت کی صورت میں اضافہ اور آخرت میں کئی گناہ ثواب کی صورت میں نفع ملتا ہے مومن کے لیے اسلام کی صورت میں ہر طرح سے بھلائی لکھ دی گئی ہے اللہ کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط پر چلے گا تو نہ صرف دنیا میں بھلائی سمیٹے گا بلکہ آخرت میں بھی کامیاب ہوگالیکن دنیا میں دیکھتے ہیں تو یہودی ابھی بھی دنیا کی معیشت پر قابض ہیں اور مسلمان مختلف حیلے بہانے کرتے ہوئے اور الہامی ہدایت کو پس پشت ڈالتے ہوئے شیطان کے جھانسے میں آ تے ہیں اور اسی وجہ سے اسلامی معاشرے زوال پذیر ہوتے نظر آرہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج بھی اللہ کے بتائے ہوئے سنہری قوانین اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر چل پڑیں تو دنیا کے خسارے سے بھی بچ جائیں گے اور آخرت کے بھی۔