برداشت کو عربی میں تحمل کہا جاتا ہے، اس کے لغوی معنی بوجھ اٹھانے کے ہیں۔ یہ وہ صفت ہے جس سے انسان میں قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے، جس کے سبب وہ غصے، جوش، اشتعال اور انتقام کے جذبے کے باوجود عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے۔ جب کہ عدم برداشت سے مراد وہ منفی رویہ ہے کہ جو کسی کی رائے، سوچ، رویّے یا نقطہ نظر سے آپ متفق نہ ہونے اور فکرو نظر کے اس اختلاف کو برداشت نہ کر پانے اور نامناسب ردعمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا اس وقت عدم برداشت کے ایسے دھارے پر کھڑی ہے جہاں کوئی کسی کو برداشت کرنا ہی نہیں چاہتا۔ جب کہ اسلام نے اختلافِ رائے کی بھی حدود متعین کی ہیں۔ اسلام بدلے کا اتنا ہی حق دیتا ہے جتنا کسی کے ساتھ ظلم کیا گیا ہو۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام زندگی اپنے اوپر کی گئی کسی زیادتی کا بدلہ نہیں لیا، بجز اس کے کہ خدائی حرمت کو پامال کیا گیا ہو، پس اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سختی سے مواخذہ فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری)۔
قرآن میں برداشت کرنے والوں کی کئی مقامات پر تعریف کی ہے۔
والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: 134)
(اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے جس معاشرے میں مبعوث فرمایا اس معاشرے تصویر کشی مولانا حالی نے مسدس حالی میں کیا ہی خوب کی ہے۔
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اک لوٹ مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کتنا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگ میں بے باک جیسے
دوسری جگہ عفوودرگز ر سے عاری اس قوم کی باہمی جنگوں اور قبیلوں کے قبیلے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں۔
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لب جو کبھی آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روزہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تلوار ان میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے کی اصلاح فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے تیرہ سال ہر طرح کی اذیتیں برداشت کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی و ذہنی اذیت دینے میں اہل مکہ نے کوئی کثر نہ اٹھا رکھی۔ مگر آپ نے ہر ظلم و زیادتی کو برداشت کیا۔ طائف کے سفر میں آپ لہولہان ہو گئے، مگر اہل طائف کو پہاڑوں کے فرشتے کی عرض پر بھی معاف کر دیا۔نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ عام مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کی پہاڑ توڑے گئے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ گئے تو وہاں بھی مشرکین نے انہیں چین نہ لینے کا تہیہ کیا اور نجاشی کے پاس پہنچ گئے۔ اس موقعہ پر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی نے نجاشی کے دربار میں جن الفاظ میں اپنی قوم کی زمانہ جاہلیت کا ذکر کیا ملاحظہ ہو؛
”اے بادشاہ!ہم جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے، بتوں کی پوجا کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے، رشتے ناتے توڑتے ، پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے اور ہمارا طاقت ور کم زور کو کھا جاتا تھا۔ان حالات میں ﷲ نے ہمارے اندر ہی سے ایک رسول مبعوث کیا۔ انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ ﷲ کو ایک جانیں، اسی کی عبادت کریں اور ان بتوں سے بیزاری کا اظہار کر دیں جن کی ہم اور ہمارے باپ دادا پوجا کرتے آئے تھے۔ صدق و امانت ،صلۂ رحمی ،پڑوسیوں سے حسن سلوک، حرام کاموں ،قتل و خون ریزی،فحش باتوں ، جھوٹ بولنے ،یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی ، ایمان لائے اور ان کے احکام کی پیروی کی تو قوم نے ہم پر زیادتیاں کرنا شروع کر دیں۔ہمیں طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر بتوں کی پوجا کی طرف واپس لوٹاناچاہا۔تب ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی۔”
ہجرت مدینہ کے بعد عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین کی حرکتیں ناقابل برداشت تھیں اور دیکھا جائے تو اس وقت ایک اسلامی ریاست بھی قائم ہو چکی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو پہچانتے تھے بلکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ کو نام بھی لکھوا لیئے تھے، مگر ان سب کی حرکتوں کے جواب میں آپ نے برداشت اور عفودرگزر سے کام لیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’طاقتور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے، بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو رکھے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔
صبر و برداشت کرنے والوں کو قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
مگر جو لوگ صابر ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘ (سورۃ ھود، آیت11)
قرآن ہمیں تکلیف و مشکل میں برداشت کرنے کا اصل گر بتاتا ہے۔
“اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں‘‘( سورۃ البقرہ، آیت45)
جو لوگ صبر کرتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں ان کے لئے فرمایا
اور اللہ کی اور اس کے رسول ؐ کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘ (سورۃ الانفال)
صبر کا اجر بھی بتا دیا اور عدم برداشت کا نقصان بھی کہ بزدلی کا آ جائے گی اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ایک اور مقام پر صبر پر ملنے والے اجر کی خوشخبری اس طرح دی، ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’ کہہ دو کہ اے میرے بندو !جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا‘‘(سورۃ الزمر، آیت10)
قرآن میں اللہ نے اپنے پیارے بندوں کی تعریف یوں فرمائی ہے۔
اور رحمان کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں‘‘۔
(الفرقان، 25: 63)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کا مشہور واقعہ ہے کہ جب ایک شخص ان کو برا بھلا کہہ رہا تھا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ برداشت کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے اور جب کسی بات کا انہوں نے جواب دے دیا تو آپؐ وہاں سے چلے گئے حضرت ابوبکر صدیق نے آپؐ سے وجہ پوچھی تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تک تم خاموش اور حالت صبر میں تھے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا ، پھر جب تم نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دیا تو وہ فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا اور جس جگہ شیطان ہو وہاں میں نہیں رہتا”
صبر اور برداشت کو حضرت علی ؓ نے ارکان ایمان میں سے ایک قرار دیاہے اور اسے جہاد ، عدل اور یقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا، اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے،1 ۔ یقین ، 2۔ صبر ، 3۔ جہاد ، 4۔ عدل۔
حضرت علیؓ نے فرمایا ‘‘ ایمان میں صبر کی مثال ایسی ہے جیسے بدن میں سر ہو، جس کا سر نہ ہو اس کا بدن نہیں ہوتا اور جسے صبر حاصل نہ ہو اس کا ایمان نہیں ہوتا۔
حاصل کلام ہم جس دین کے پیرو ہیں وہ صبر و برداشت کی اہمیت اور ضرورت پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ 16 نومبر کو پوری دنیا میں رواداری و برداشت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دنیا انسانوں کا مشترکہ گھر ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیئے جبھی یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔