اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں ،وہ اقتصادی سماجی ترقی میں بھی دیگر دنیا سے کافی آگے ہیں۔سال 2020کے “گلوبل انوویشن انڈیکس” کا جائزہ لیا جائے تو چین عالمی درجہ بندی میں چودہویں نمبر پر ہے جبکہ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین صف اول میں شامل تیس ممالک میں متوسط آمدنی کا حامل واحد ملک ہے ، باقی فہرست میں دنیا کے بلند آمدنی والے ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔موجودہ صورتحال میںٹیکنالوجی کے میدان میں خودانحصاری ہر ملک کی یکساں خواہش بن چکی ہے اور ابھی حال ہی میں اس حوالے سے چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت آئندہ پندرہ برسوں یعنیٰ 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔
اس دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک منصوبوں کی تکمیل کرے گا۔
اس دوران چین کی جانب سے یہ عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی میںخود انحصاری کی جستجو کی جائے گی اور اس سارے عمل میں اعلیٰ معیاری ترقی پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔اس مقصد کے حصول کے لیے چین” قومی انوویشن نظام” میں بہتری لائے گا اور ملک کو ایک “سائنسی و تکنیکی پاور ہاوس”میں ڈھالنے کے لیے اپنی کوششوں میں مزید تیزی لائے گا۔چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو خریدا نہیں جا سکتا ہے لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی کی کوشش کی جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس طرح “چینی دانش” کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جائے گا۔
چین کی جانب سےسائنسی تخلیق اور جدت کو فروغ دینے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اس ضمن میں قومی لیبارٹریز کی تعمیر کو فروغ دیا جائے گا ، قومی سائنسی مراکز اور علاقائی انوویشن مراکز کی تعمیر کی جائے گی اور بیجنگ سمیت شنگھائی ، گوانگ تونگ۔ہانگ کانگ۔مکاو گریٹر بے ایریا میں سائنسی و تکنیکی تخلیقی مراکز کے قیام کے لیے مضبوط حمایت فراہم کی جائے گی۔چین کی کوشش ہے کہ نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں اور گرین ترقی کو ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ ایسی صنعتوں میں نیو جنریشن انفارمیشن ٹیکنالوجی ،بائیو ٹیکنالوجی ،نئی توانائی ، نیو میٹریلز ،ہائی اینڈ مصنوعات ، نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیاں ،ماحولیاتی تحفظ ،ائیرو اسپیس اور بحری امور سے وابستہ صنعتیں شامل ہیں۔
چین کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں اس بات پر توجہ دی گئی ہے کہ انٹرنیٹ ،بگ ڈیٹا اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کو دیگر صنعتوں کے ساتھ گہرائی سے مربوط کیا جائے، جدید صنعتکاری کو ترقی دی جائے ،پائیدار ترقیاتی عمل میں نئی ابھرتی ہوئی صنعتوں کو فوقیت دی جائے اور نئی ٹیکنالوجیز ،نئی مصنوعات ، نئے بزنس ماڈلز اور کاروبار کی نئی اقسام کی حوصلہ افزائی کی جائے۔فطرت اور مادی ترقی کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ایسے سلسلہ وار اقدامات متعارف کروائے جائیں گے جس سے مجموعی طور پر ایک “گرین اقتصادی سماجی ترقی” ممکن ہو سکے گی۔
چین نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے بھی اپنے عزائم واضح کرتے ہوئے ایک روڈ میپ ترتیب دیا ہے اور ایک عملی منصوبہ تشکیل دیا ہے تاکہ 2030سے قبل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں ممکنہ حد تک کمی لائی جا سکے۔ چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ چین 2060تک کاربن سے پاک ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنائے گاجس نے کووڈ۔19کے بعد کے دور میں گرین ترقی اور گلوبل گرین انقلاب کو فروغ دینے کے لیے چین کی حکمت عملی اور اقدامات کی سمت متعین کر دی ہے۔چینی صدر نے سائنس ،ٹیکنالوجی اور انوویشن کے شعبہ جات میں بھی چین اور دیگر دنیا کے درمیان کھلے ،اشتراکی اور باہمی سودمند تبادلوں اور تعاون کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔
حالیہ عرصے میں چین نے ہر اعتبار سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انسداد غربت ،عوامی معیار زندگی میں بہتری ،صحت ،تعلیم ،سائنس و ٹیکنالوجی غرضیکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیا جائے، دنیا چین کی کامیابیوں کی معترف ہے۔ایک بڑے ملک کی حیثیت سے چین کی حاصل شدہ کامیابیوں سے دنیا کے لیے بھی ثمرات حاصل ہوئے ہیں اور انوویشن کے میدان میں چین کی ترقی نہ صرف چینی عوام کے مفاد میں ہو گی بلکہ چین کے ہمسایہ ممالک سمیت دیگر دنیا بھی وسیع پیمانے پر اس سے مستفید ہو سکے گی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اشتراکی ترقی پروان چڑھ سکے گی۔